|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2020

بلوچستان کو ماضی کی طرح وفاق کی جانب سے شروع کردہ”احساس پروگرام” میں بھی نظر انداز کیا جارہا ہے رواں ماہ کی 9 تاریخ سے شروع پروگرام کے تحت تاحال ملک بھر میں لاکھوں مستحق خاندانوں میں پروگرام کے تحت 12 ہزار روپے فی خاندان رقوم کی تقسیم کی جاچکی ہے مذکورہ پروگرام سربراہ ثانیہ نشتر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تاحال بلوچستان کے 41 ہزار سے زائد مستحقین اس پروگرام سے فائدہ اٹھا چکے ہیں جسکے تحت ان مستحقین میں 5 کروڑ کے لگ بھگ رقم تقسیم کی گئی ہے جوکہ تاحال تقسیم کردہ مجموعی رقم کا 3 فیصد بھی بمشکل بن رہا ہے۔جبکہ شروع سے ہی پروگرام کے تحت صوبوں میں اسکی تقسیم کا شئیر غلط رکھا گیا ہے۔

پاکستان کے مستحق و غریب خاندانوں میں تقریباً 10.57 فیصد خاندان بلوچستان کے ہیں جبکہ مذکورہ پروگرام میں رقوم کی تقسیم کے لئے آبادی کا فارمولا اپنایا گیا ہے جسکے مطابق صوبے کا حصہ 5.49 بنے گا اسکے برعکس صوبے میں غربت کہیں زیادہ اور کئی خاندان غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی اور وفاقی وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی تقریباً 71 فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت کا شکار ہے جسکے مطابق 85 فیصد دیہی اور 35 فیصد شہری آبادی کثیر الجہتی غربت کا شکارہے۔احساس پروگرام کے تحت 144 بلین روپے 12 ملین مستحقین میں تین کیٹگریز کے تحت تقسیم کئے جانے ہیں۔

پہلی کیٹگری میں 4.5 ملین ان مستحقین میں تقسیم ہونگے جوکہ پہلے سے بینطیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ دوسری کیٹگری میں 4 ملین روپے ان خاندانوں میں تقسیم کئے جائیں گے جنکی رجسٹریشن تو کی گئی ہے بی آئی ایس پی میں مگر وہ اس پروگرام کے لئے اہل نہیں ہوسکے جبکہ آخری کیٹگری کے تحت 3.4 روپے ایسے خاندانوں میں تقسیم کئے جائیں گے جوکہ آخری 2010 میں منعقدہ غربت سروے میں رہ گئے تھے۔

ان خاندانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ نمبر 8171 پر بھیجیں تاکہ انہیں اس پروگرام میں شامل کیا جاسکے۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار عدنان عامر نے پروگرام کے اعلان کے بعد صوبہ بلوچستان کے مستحق خاندانوں کو نظرانداز کئے جانے کے حوالے سے معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارے “دی فرائیڈے ٹائمز” میں اس پروگرام کے اغراض و مقاصد اور بلوچستان کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے رپورٹ لکھی تھی جس میں انہوں نے بیشتر تیکنیکی مسائل اور رقوم کی غیر منصفانہ تقسیم پر سوالات اٹھائے ہیں۔

عدنان عامر کے مطابق غربت کی بجائے آبادی کے بنیاد بناکر رقوم کی تقسیم سے نا صرف مقصد حاصل کرنے میں ناکامی بلکہ صوبائی حکومت کو بھی مشکلات پیش آئیں گی اور کئی خاندان اس موقع سے محروم رہ جائیں گے انکے مطابق 2010 میں آخری غربت سروے میں صوبے کے رہ جانے والے اور نظر انداز مستحق خاندانوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جانا چاہیے جبکہ رقوم ک تقسیم آبادی کو نہیں بلکہ غربت و مستحق خاندانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یقینی بنانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خاندان مستفید ہوسکیں۔مذکورہ پروگرام میں بھی بی آئی ایس پی طرز کا آبادی کو بنیاد بنا کر تقسیم کا فارمولا بنایا گیا ہے جبکہ بی آئی ایس پی پروگرام کو شروع ہوئے کئی سال گزر گئے۔

اور حالیہ رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو صوبے میں پہلے سے غربت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عدنان عامر کے مطابق وفاقی حکومت سنہری موقع گنوا رہی ہے رہ جانے والے نظرانداز خاندانوں کی رجسٹریشن کرکے انہیں قومی معاشی و اقتصادی رجسٹری میں انکی شمولیت کو یقینی بناکر ماضی قریب میں نا صرف غربت پر قابو پایا جاسکتا ہے ان خاندانوں کی اگر ابھی رجسٹریشن کردی جائے تو اس طرح سے یہ مستقبل میں بھی اس پروگرام سے مستفید ہوتے رہیں گے۔

اس طرح حکومت کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔صوبائی حکومت اور رضاکار تنظیموں کا اس حوالے سے بھرپور کردار ناگزیر ہوچکا ہے انہیں آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ مستحق خاندانوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنایا چاہیے جوکہ اب انتہائی آسان ہوچکا ہے جسکے تحت آپ صرف شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اپنی رجسٹریشن کرواسکتے ہیں اگر وفاقی حکومت نے اس موقع پر بھی مستحقین کو نظر انداز کردیا تو صوبائی حکومت کی طرف سے صورتحال کو قابو میں کرنا اور ان خاندانوں تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔

موجودہ صورتحال سے جہاں ہر طبقہ پریشان و معاشی بحران کا شکار وہاں جرائم و بدامنی میں اضافہ ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ آبادی کی بجائے غربت کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امدادی رقوم کی تقسیم یقینی بناکر صوبائی حکومت کی مدد کرے تاکہ عالمی وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کی تپش کو ہر ممکن حد تک کم کیا جا سکے۔