|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2020

ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا:
ہمیں اخلاقی فتح حاصل ہو چکی تھی۔ جب ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران کو سب دروازے بند ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگے اور ان پر گھیرا تنگ ہونے لگا تو انہوں نے وہی کیا جو عموماً میدانِ جنگ میں ایک بزدل سپاہی کرتا ہے۔ ہماری مہم کو ادارہ دشمنی، سلامتی دشمنی قرار دے کر ایک لیٹر نمبر1395-1405/Awnبنام سیکرٹری بجھوا کر ہمیں غداری کا مرتکب قرار دیا۔ اور مذکورہ لیٹر کی کاپی سیکورٹی اداروں کو ارسال کرکے اپنے مذموم عزائم کا پہلی بار کھل کراظہا کیا۔اس سے قبل وہ بہت سارے کندھے استعمال کرکے ناکامی کا شکار ہو چکے تھے۔

جب تمام حربے ناکام ہونے لگے تو ان کا آخری وار میرا ذریعہ معاش ٹھہرا۔ ذریعہ معاش پر وار کرکے وہ مجھے بیک فٹ پہ لے جانے کے خواہاں تھے۔ میرے خلاف میرے ادارے کو لیٹر ارسال کیے گئے چونکہ تحریک شروع کرنے سے قبل میں تمام زاویوں کا جائزہ لے کر اپنے آپ کو ذہنی طورپرتیار کر چکا تھا۔

میرے لیے مذکورہ ہتھکنڈوں نے کچھ اثر نہیں کیا۔ ادارے کا سربراہ میرے کام سے بخوبی واقف تھا اور وہ مجھے سپورٹ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیارتھے لیکن میں دو اداروں کے درمیان تصادم کے حق میں نہیں تھا۔ دورانِ مہم میں خود بھی اس بات کو محسوس کر رہا تھا کہ جتنا ٹائم میں مہم کو دے پا رہا ہوں جاب کو نہیں دے پا رہا۔ ضمیر کے آگے جواب دہ ہونا پڑ رہا تھا، ملازمت سے مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ کر چکا تھا۔ سو اگلے دن اپنا استعفیٰ ذمہ داران کے ٹیبل پر رکھ کر وہاں سے نکل آیا ِ اب میں تمام قیود سے آزاد ہو چکا تھا۔

محکمہ تعلیم کے ضلعی ذمہ داران کے اوچھے ہتھکنڈے:

منفی ہتھکنڈوں کو دوام دینے کے لیے انہوں نے ایک دو بلیک میلر صحافیوں کا بھی سہارا لیا جن کے فون کالز آئے مگر مجھے ان کے کالز نے کرنا کیا تھا، انہیں خود شرمندہ ہونا پڑا۔ باقی صحافی برادری اور ہم خیال لکھاریوں کا سپورٹ حاصل ہوا جن کی خبروں اور تحریروں نے ہمارے مؤقف کو مضبوط بنایا۔ ڈان کے کالم نگار زبیدہ مصطفی کے ہفتہ وار کالم نے بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ڈی جی پی آر کا ایک ملازم بھی اس سلسلے میں اُن کے کام آیا، اس کی دھمکی آمیز فون کال نے سوچنے پر مجبور کیاکہ یہ ادارہ کب سے تفتیشی ادارے کی حیثیت سے کام کرنے لگا ہے اور کیا یہ ادارہ ملازم بھرتی کرکے انہیں آداب یا اصول نہیں سکھاتا۔

ایک لیٹر بنام ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ لکھ کر سیدھا ان کے آفس چلا آیا، یہ تو اس ملازم کی خوش قسمتی تھی کہ ڈپٹی ڈائریکٹر جن سے احترام کا رشتہ ہے وہ سامنے نظر آئے، آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے فورا ًبتا دیا۔ انہوں نے فوری طور پر مذکورہ ملازم کو بلا کر معاملہ ان کے سامنے رکھا تو وہ شرمندہ ہوئے، اپنی حرکت پر نام ہو کر معذرت خواہ ہونے لگے۔ یہ ایک اور اخلاقی فتح تھی جو ہمیں حاصل ہو چکی تھی۔ مسعود حلیم ناکامی در ناکامی کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا تھا۔ اس دوران اس کے ایک اور دستِ راست ابراہیم مہر کا فون آیا کہ ”آجائیں یہیں بیٹھ کر معاملہ طے کرتے ہیں۔“ میں نے جواباً کہہ دیا کہ میرا جائیداد کا مسئلہ تو آپ لوگوں کے ساتھ نہیں چل رہا کہ بیٹھ کر اسے حل کیا جائے مسئلہ بچوں کی زندگی کا ہے ہم مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں آپ لوگ کاروائی کریں۔

بند سکولوں کی نشاندہی ہم کر چکے تھے۔ ہمیں 200کے آس پاس بند سکولوں کاڈیٹا مل چکا تھا۔ ہم نے وہ ڈیٹا پبلک کر دیا۔ سکولوں کی بندش میں بڑا ہاتھ ضلعی ایجوکیشن آفیسران کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کا بھی تھا جو تنخواہ تو محکمہ ایجوکیشن سے لے رہے تھے مگر ڈیوٹی اپنے گھروں کے اندر دے رہے تھے،یہ وہ اساتذہ تھے جو طویل عرصے سے اپنی ڈیوٹی سے غائب تھے۔ ان اساتذہ میں میرے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔ انہوں نے ہماری اس مہم کو اپنے خلاف گردانا اور اعلانیہ طور پر قرابت داریوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ ہم نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر ان لمحات کو سہنے کا ہنر اپنے دل و دماغ کے اندر پیدا کیا۔

ہم اپنی مہم کے دوران 210اساتذہ کی فہرست سامنے لے آئے تھے جو عرصہ دراز سے غیر حاضر تھے۔ جن کی غیر حاضری کا فائدہ محکمہ تعلیم کے ضلعی ذمہ داران، جی ٹی اے کے ضلعی اراکین اور قدوس بزنجو کے من پسند کو ہو رہا تھا، اساتذہ کی غیر حاضری سے پہلا فائدہ تو انہیں اساتذہ کے تنخواہوں میں حصہ دار ہونے کی صورت میں مل رہا تھا۔ اساتذہ کی غیر حاضری سے جو جو سکول بند تھے، ان کا سالانہ بجٹ ضلعی ذمہ داران اور نمائندگان کے من پسند افراد کے جیبوں میں جارہے تھے۔ اور اس پورے عمل سے نقصان اہل علاقہ اور بچے اور بچیوں کا ہو رہا تھا جو سکولوں کی بندش کی وجہ سے تعلیم سے محروم چلے آ رہے تھے۔ مگر زمین کا یہ خاکہ مقتدر حلقوں کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔

صوبائی ذمہ داران تک رسائی:

ابھی تک ہم نے اپنے مہم کا دائرہ سوشل میڈیا اور میڈیا تک محدود رکھا تھا اور اس مہم کے ذریعے سے اپنی آواز حکام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وقت آگیا تھا کہ ہم حکام تک براہ راست پہنچ پاتے۔ دن رات کی محنت اور کوششوں سے ہم ایک کتابچہ تیار کر چکے تھے۔ ہمارا سب سے پہلا انتخاب صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی تھے۔ ظہور بلیدی گو کہ ایک ایسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس کے حوالے سے بلوچستان میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی مگر ظہور بلیدی خود قدرے مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ سنا تھا کہ علم دوست آدمی ہیں،یہ ہماری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے تعاون کی یقین دہانی کرائی، ملاقات کی خبر اور تصویر جب سوشل میڈیا اور میڈیا کی زینت بنیں تو ہمیں با خبر ذرائع سے پتہ چلا کہ مذکورہ ملاقات قدوس بزنجو پر سخت ناگوار گزری ہے، اب خدا جانے اس خبر میں کتنی صداقت تھی۔

ہم ثبوت کا پلندہ نہ صرف مشیر تعلیم، سیکرٹری ثانوی تعلیم بلوچستان، خود قدوس بزنجو کے چیمبر تک پہنچا کر آئے تھے بلکہ سی ایم آئی ٹی کے چیئرمین تک رسائی کی اور کاروائی کرنے کی گزارش کی۔ خدا جانے ان کی جانب سے کتنی فیصد کاروائی ہوئی یا نہیں، البتہ ہم اپنا حق ادا کر چکے تھے۔ ہمارا اگلا ٹھکانہ نیب بلوچستان تھا مگر دوستوں کی رائے سامنے آئی کہ سی ایم آئی ٹی کی کاروائی جب تک عمل میں نہیں آتی، اس وقت تک رکیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ریکارڈ بی این پی مینگل کے رہنماؤں ثنا ء بلوچ اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو کو پہنچا دیا۔ ہم اس حوالے سے پر امید تھے کہ تعلیمی مسئلے کو لے کر بی این پی کے ذمہ داران کی جانب سے ردعمل ضرور آئے گی اور وہ اسمبلی فلور پر اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے مگر وہ دن اور آج کا دن، ان کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ خدا جانے وہ کس مصلحت کا شکار ہو چکے تھے یا یوں کہیے کہ وہ قدوس بزنجو سے موجودہ وقت ناراضگی مول لینا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ ملاقات اور ثبوت کی حوالگی کی خبروں نے ضلع کے غیر ذمہ دار آفیسران اور حواریوں کی نیندیں اڑا دیں تھیں۔ اب وہ فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔

عدالتی احکامات اور ضلعی ذمہ داران سے اختیارات کی واپسی: