|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2020

کرونا وائرس یقیناحکومت کے لیے ایک بہت بڑا متحان ہے لیکن آٹا چینی اسکینڈل اور پاور سیکٹر اسکینڈل اس سے بھی بڑا متحان ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک کرونا وائرس کی بات ہے تو پاکستان میں اس وقت کرونا سے متاثرین کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس موذی مرض ے مرنے والوں کی تعداد 85 سے زائد ہو چکی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید خطرات سے دو چار ہے کیونکہ پاکستان کرونا وائرس سے پہلے ہی معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ بلوم برگ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دو سال میں عالمی معیشت کو پانچ ہزار ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ظاہر ہے عالمی معیشت کا پاکستانی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔

پاکستان میں جنوری اور فروری 2020 ء میں گندم اور چینی کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70روپے فی کلو ہو گئی تھی جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا تھا، اور اب ایف آئی اے کی جانب سے دی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کمیشن میں انٹیلی جینس بیورو، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے نمائندے شامل تھے۔

دوسری طرف پاور سیکٹر میں خرد برد کا نیا انکشاف ہو چکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کو پیش کی جانے والی 278صفحات پر مشتمل رپورٹ 9رکنی کمیٹی نے تیار کی جس کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ 100ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔بجلی کے پلانٹس 15%کے بجائے50سے70%منافع لیتے رہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ وہ کرپشن کے خلاف سخت اور دو ٹوک موقف رکھتے ہیں اورمزکورہ بالا ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورتوں میں عمران خان صاحب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیونکہ جہانگیر ترین حکمران جماعت پاکستان تحریک ِانصاف کے بانیان میں سے ہیں اور تحریک ِ انصاف کے لیے ان کی بہت بڑی خدمات ہیں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ تحریکِ انصاف کو کامیاب کرنے میں جہانگیر ترین کی ایک بہت بڑی کاوش ہے۔ دوسری شخصیت مونس الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے بیٹے ہیں۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں اگر پرویز الٰہی تحریکِ انصاف کی حمایت نہ کرتے تو شاید حکمران جماعت کے لیے پنجاب میں حکومت بنانا مشکل ہو جاتا۔ اگر عمران خان صاحب ان ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔

تو حکومت کو سخت اندرونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ وفا قی وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کے مطابق اس تحقیقاتی رپورٹ کے بعد عمران خان صاحب اور جہانگیر ترین کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ممکن ہے کہ ذمہ داران کے خلاف کاروائی حکومت کے لیے ایک بحران پیدا کرے۔ دوسری طرف اگر عمران خان صاحب کاروائی نہیں کرتے تو ان کے لیے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

کیونکہ اپوزیشن رہنماء آٹا چینی بحران کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا پر زور مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان اپوزیشن رہنماؤں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اور نگزیب اور پیپلز پارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری شامل ہیں۔ فرض کریں کہ اگر حکومت ذمہ داران کے خلاف کاروائی نہیں کرتی تو اسے اداروں کی طرف سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عدالتیں ہو ں یا دوسرے قومی ادارے، کرپشن کے خلاف سب متحد ہیں۔ اور سب کے سب کرپشن کو ختم کرنے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کا حکومت پر کافی دباؤ ہو گا۔

جہاں تک کاروائی کرنے یا نہ کرنے کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان صاحب کاروائی کرتے ہیں یا نہیں کیوں کہ عمران خان صاحب کرپشن کے خلاف دو ٹوک موقف رکھتے ہیں۔ اور تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جس کے اقتدار میں آنے کی وجہ وہ بلند و بانگ نعرے ہیں جو اقتدار سے پہلے کرپشن کے خلاف لگائے گئے اور اسی کرپشن مکاؤ مہم کے تحت موجودہ دورِ حکومت میں کئی اپوزیشن رہنما کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔

جن میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی،پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور شامل ہیں۔ جہاں تک نیب کی بات ہے تو نیب کرپشن کے خلاف سر گرم ِ عمل ہے اور بلا تفریق کاروائی کر رہا ہے، اس کیس میں نیب کسی صورت بھی گندم چینی بحران کے ذمہ داران کو ڈھیل نہیں دے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان صاحب ہمیشہ کی طرح دلیرانہ فیصلے کریں کیونکہ پارٹی کے اندر اور باہر سے گندم چینی بحران کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ یہ عمران خان صاحب کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کیونکہ اگر عمران خان صاحب ذمہ داران کے خلاف کاروائی نہیں کرتے تو پارٹی اور حکومت کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔

One Response to “وزیر اعظم عمران خان کے لیے کڑاا متحان”

Comments are closed.