ادارے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں سرکاری اداروں کے ساتھ نجی ادارے اور دیگر این جی اوز بھی کام کرتی ہیں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ جس سے بے روزگاری میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان کا نصف بوجھ پرائیویٹ اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو ان اداروں نے ہمیشہ ملکی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔
جو لوگ اس شعبے سے وابستہ نہیں ہیں، انہیں یہ نہایت ہی آسان کام لگتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔مہذب معاشروں میں استاد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس مقدس شعبے کو قابلِ احترام بنانے کیلیے خصوصی مراعات دی جاتی ہیں۔ گزشتہ برس بھوٹان کے وزیراعظم لوٹے شیئرنگ نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ ہم نے اساتذہ کی تنخواہ باقی تمام پیشوں سے زیادہ رکھی ہے تاکہ قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد استاد بننے کو ترجیح دیں۔ اسی طرح کوریا میں ایک استاد اپنا کارڈ دکھا کر اْن سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو ہمارے ملک میں صرف وزیروں، مشیروں اور اسمبلی ممبران کیلیے مخصوص ہیں۔
یقیناً ایک استاد کو ضروریاتِ زندگی اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کیلیے معقول تنخواہ درکار ہوتی ہے تاکہ وہ کسی معاشی دباؤ کے بغیر قوم کے نونہالوں کی صحیح معنوں میں آبیاری کرسکے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے نجی تعلیمی اداروں میں محض پانچ ہزار کی قلیل اور تضحیک آمیز تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور سالانہ 2 فیصد تو کہیں 5 فیصد کی شرح سے تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی مضحکہ خیز ہے۔انہیں وہ مراعات بھی میسر نہیں جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی باضابطہ پلیٹ فارم ہے، جہاں ان کے غور طلب مسائل کے حل اور حقوق کی آواز حکام بالا تک پہنچائی جاسکے۔
پرائیویٹ اساتذہ کو تنخواہیں فیسوں کی ادائیگی کے بعد ہی ملتی ہیں اور ان کے پاس فیسوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ جبکہ بعض والدین چھٹیوں کی فیسیں تک دینے سے پہلوتہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر فیسوں کی وصولی کے خلاف مختلف تحریکیں چلانے اور اساتذہ کی ہرزہ سرائی کرنے والے چند فتنہ پرور افراد کے بے تکے اور عقل سے ماورا بیانات دیکھ کر کلیجہ ہلتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں کو مافیا کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔
ان کا نعرہ ہے کہ جب چھٹیوں میں پڑھایا ہی نہیں جاتاتو فیس کس بات کی؟ حالانکہ زیادہ تر تعلیمی ادارے چھٹیوں کو ٹریننگ، ورک شاپس اور ماہانہ و سالانہ منصوبہ بندی کی صورت میں استعمال میں لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ اسکول کے بعد اپنے گھر پر بھی ہوم ورک چیک کرتے ہیں اور کلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔ اسی طرح سال بھر والدین کو مطمئن کرنے کے ساتھ پبلک ڈیلنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان تمام چیزوں کو مدِنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجیے۔ حالیہ عالمی وبا نے وطنِ عزیز میں جو قہر برپا کیا ہے اس سے نظامِ کاروبار بری طرح متاثر ہے اور ملکی معیشت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ باوجود اس کے سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر مراعات میں اضافہ ہوتا رہے گا، گھر کا چولہا جلتا رہے گا۔ تو سوچیے ایسی نازک صورت میں پرائیویٹ اداروں کی کیا حالت ہوگی؟ اور جن کندھوں پر قوم کے نونہالوں کا مستقبل سوار ہے، آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں ان پر کیا بیتی ہوگی؟ حکومت نے دیہاڈی دار طبقے کی مشکلات کو بھانپ لیا ہے اور مالی مشکلات کے شکار خاندانوں کیلیے فوری ریلیف پیکیج کی صورت میں 200 ارب کی خطیر رقم مختص کی ہے۔
جس سے مستحق افراد کو 4 ماہ کیلیے فی کس 3 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ جبکہ اس لاک ڈاؤن کے باعث پرائیویٹ تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمین کیلیے معاشی مشکلات پیدا ہوگئے ہیں اور گھر کے افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔اگر اس سیکٹر کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی تو مستقبلِ قریب میں ان اداروں کی بقا مشکل میں پڑجائے گی اور اکثر اساتذہ کا فکرِ معاش کی تلاش میں اس پیغمبرانہ پیشے کو خیرباد کہنے کا قوی امکان ہے۔ جس کا بوجھ براہ راست حکومت کے کندھوں پر آئے گا۔ لہٰذا ریاستِ مدینہ کے فرمان رواؤں سے دست بستہ گزارش ہے کہآپ ان پرائیویٹ سیکٹرز کے مسائل کا ادراک کرکے ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
اور ان کیلیے خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں۔ اس سلسلے میں حکومتِ گلگت بلتستان نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عندیہ دیا ہے کہ وہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں ادا کرے گی جوکہ قابلِ ستائش ہے۔ اب اس حکومتی حکم نامہ پر عملِ درآمد کرکے اساتذہ کو جلد از جلد تنخواہیں دی جائیں اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی حکومت یہ اقدام اٹھائے تاکہ قوم کے محسنوں کا معاشی پہیہ چلتا رہے۔