|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2020

اگر افغانستان میں امن کی بات کریں تو افغانستان کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ 1839ء سے لے کر 1842ء تک لڑی جانے والی پہلی جنگِ آزادی سے لے کر آج تک افغانستان میں امن کے ادوار کم اور جنگ کے ادوار زیادہ ہیں۔ افغانستان عالمی طاقتوں کی جنگوں کا مرکز رہا ہے اور عالمی طاقتوں کے لیے قبرستان بھی ثابت ہوا ہے۔1979ء سے 1989ء تک دس سالہ طویل جنگ میں روس کو افغانستان سے شکست ہوئی اور اب 18سالہ طویل جنگ کے بعد امریکہ کو افغانستان سے امن معاہدہ کی صورت میں نکلنا پڑاہے۔

یہ امن معاہدہ 29فروری 2020ء کو قطر کے دارلحکومت دوہا میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہوا۔ اس معاہدہ کے تحت طے پایا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا 14ماہ کے دوران ہو گا جبکہ اس کے جواب میں طالبان نے ضمانت دی کہ افغان سر زمین القاعدہ سمیت کسی بھی دہشتگرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کی شرط بھی شامل تھی۔ جس کے تحت 10مارچ 2020 ء تک طالبان کے پانچ ہزار قیدی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکار رہا ہونا تھے۔

تاہم فریقین کے درمیان تنازعات اور افغان حکومت کے اعتراضات کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو تا گیا۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان تھا۔ اس میں افغان حکومت کا کسی حد تک کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ اس لیے اہم تھا کیونکہ اس مرحلہ کے بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونا تھے جس میں افغانستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا جانا تھا۔10مارچ تک قیدیوں کی رہائی کا مرحلہ کھٹائی میں پڑا رہنے کی وجہ وہ 15 قیدی تھے جنھیں افغان حکومت خطرناک قیدی شمار کرتی ہے۔

افغان حکومت کے مطابق یہ 15قیدی افغانستان پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ افغان حکومت کے مطابق یہ 15قیدی طالبان کے اہم کمانڈرز ہیں جبکہ طالبان اس بات کی نفی کرتے ہیں، ان کے مطابق یہ 15قیدی ان کے ساتھی ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق ان15 قیدیوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ قیدی ان تمام طالبان قیدیوں کو جانتے اور شناخت رکھتے ہیں جن کی فہرست افغان حکومت کو دی گئی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق ان 15 قیدیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ افغان حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ معاہدے پر عمل در آ مد ہو اور بر وقت امن کا قیام ہو سکے۔

اب 13اپریل سے قیدیوں کی رہائی کا کام شروع ہو چکا ہے اور حکومت نے طالبان کے 300قیدی رہا کر دیئے ہیں جن کے بدلے میں طالبان نے حکومت کے 20اہلکار رہا کیے ہیں۔افغان حکومت کے ان 20اہلکاروں کی رہائی کے وقت ان کی تصاویر بھی بنائی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان اہلکاروں کو رہائی کے وقت پیسے بھی دیئے جا رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے دیئے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کرونا وائرس کے خدشات کے پیشِ نظر کی گئی۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ امریکہ جو18سالہ طویل جنگ سے افغانستان میں امن کے قیام میں ناکام رہا اس قطر امن معاہدہ سے افغانستان میں امن قائم کر سکے گا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امن معاہدہ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو امن معاہدہ کی صورت میں افغانستان سے انخلا کامحفوظ راستہ چاہیے تھاتا کہ اس کی ساکھ کسی حد تک محفوظ رہے۔اگر یہ امن معاہدہ ہوتا تو اس کے ثمرات افغان عوام اور حکومت کو بھی مل رہے ہوتے کیونکہ 10مارچ 2020ء سے پہلے قیدیوں کی رہائی کی شرط کا معاملہ تا حال زیرِ التواہے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ افغان حکومت کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو رہا کیونکہ یہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان تھا نا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں اگرطالبان اور افغان حکومت، دونوں فریق قیدیوں کی رہائی ممکن بناتے ہیں تو اس کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو گا؟ جبکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صدارتی عہدے پر جنگ جاری ہے جب تک سیاسی بحران حل نہیں ہوتا تب تک افغانستان میں امن ممکن نہیں۔یقیناافغانستان میں سیاسی بحران کے حل کے لیے ہمسایہ مما لک کا کردار اہم ہے۔

میرے خیال میں افغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے نہیں پاتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔اور یہ تبھی ممکن ہے جب افغان حکومت ہمسایہ ممالک سے تعلقات اچھے رکھے گی۔ افغانستان میں ہمسایہ ممالک کا کردارہی دیر پا امن کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔