|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2020

سکولوں کا دورہ:
میں نے آواران کے مختلف سکولوں کی فہرست بنا کر ان کا دورہ کیا جن میں مڈل سکول بیدی، گرلز ہائی سکول بیدی، گرلز مڈل سکول سوراب، گرلز ہائی سکول آواران ٹاؤن، بوائز پرائمری سکول سوراب، بوائز ہائی سکول کہن زیلگ، پرائمری سکول انامی بھینٹ، بوائز مڈل سکول ماشی، گرلز سکول کہن زیلگ اور ایجوکیشن سینٹرز شامل تھے۔ وہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں کیں انہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، ان کے مسائل سنے، بچے اور بچیوں کو سنا۔ سکولوں کو مسائل کا آماجگاہ پایا۔ اسپورٹس گراؤنڈ، پانی، واش رومز اور دیگر مسائل کا سامنا کرتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو بجٹ ان سکولوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے وہ جاتا کہاں ہے۔ صوبائی سطح پر بیٹھے ذمہ داران اور پالیسی سازوں کو کیا گراؤنڈ کی اس صورتحال کی خبر ہے جس صورتحال کا سامنا یہاں کے بچے اور اساتذہ کر رہے ہیں۔ یہ خاکہ اوجھل ہے۔ سکولوں تک رسائی ہم بائیک کے ذریعے کرتے رہے،بائیک کی یہ سہولت ہم خیال دوستوں کی مرہونِ منت تھی۔

دورے کے دوران میری ملاقات ایسے اساتذہ سے بھی ہوئی جو ان مشکل حالات میں گمنام سپاہی کا کردار ادا کر رہے تھے، یہ وہ سپاہی ہیں جو محاذپر رہ کر اپنی ڈیوٹی تو نبھا رہے ہیں مگر ان کا یہ کردار سامنے نہیں آتا۔ اور نہ ہی ان اساتذہ کی داد رسی کی جاتی ہے۔ ان کے مشکلات ہیں انہیں ٹریننگ نہیں دی جاتی۔ ان کے لیے رہائش کا باقاعدہ انتظام نہیں۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں کوئی سند نہیں دیا جاتا۔ یہ اداروں کا کام ہے حکومت کا کام ہے جو ان اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے، یہ معاشرتی ساہو کاروں کا کام ہے مگر آواران جس پراسرار کیفیت کا شکار تھا، زلزلے کے بعد اس کی وہ کیفیت مزید مخدوش ہوگئی جس کا سب سے زیادہ نزلہ ٹیچرز پر گرا۔ اور بے شمار اساتذہ ایسے تھے جو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہوئے۔

کئی ٹیچرز ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آئے۔ ہم نے اس سے قبل بھی ایسے حاضر باش اساتذہ کے حق میں آواز بلند کی تھی جب پرائمری سکول گوکو کے ٹیچر کو سابق ضلعی ایجوکیشن آفیسر مسعود حلیم کی جانب سے دھمکایا گیا تھا تو ہم نے اس اقدام کے خلاف آواز بلند کیا تھا۔ جس کا باقاعدہ نوٹس ڈپٹی کمشنر آواران نے لے کر جواب طلب کیا تھا۔ ہم نے ایسے اساتذہ کے خاکے سامنے لانا شروع کیے تاکہ حاضر باش استاد کا وقار بلند ہو۔ ہم نے کئی ایسے سکولوں کا خاکہ ویڈیو رپورٹنگ کے ذریعے نمایاں کیا جو عمارات سے محروم تھے۔ پرائمری سکول انامی بھینٹ کی ویڈیو رپورٹنگ کو ٹی وی چینلز نے بھی اپنی رپورٹنگ کا حصہ بنا کر اجاگر کیا۔ اس کے علاوہ دیگر سکولوں میں جہاں اساتذہ غیر حاضرتھے اور اس کے اثرات بچوں پر پڑ رہے تھے ہم نے ان کی عکاسی ویڈیو رپورٹنگ کے ذریعے کی جسے ہر جگہ دیکھا گیا۔ یہی وجہ تھی سیکرٹری ثانوی تعلیم کا مؤقف بھی سامنے آنا شروع ہو گیا۔ ”غیر حاضر افسران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی، ڈی ای اوز جائے تعیناتی پر حاضری یقینی بنائیں، بند سکولوں کو فعال کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے“ روزنامہ جنگ کوئٹہ 3دسمبر 2019کی خبر۔

آواران میں ہماری موجودگی کو ایک ہفتہ ہونے کو تھا کالج جسے ڈگری کا درجہ مل چکا تھا۔ کالج کی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے لیے ہم وہاں کا رخ کر چکے تھے۔ پروفیسر محمد حسین پرنسپل ڈگری کالج ہیں مگر اساتذہ کی کمی کے باعث انہیں کلاس لینا پڑھ رہا تھا جس وقت میں کالج کے اندر داخل ہوا تو وہ بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھے۔ہم نے اجازت لی اور پیچھے کے بینچ پر بیٹھ گئے، کلاس سے فراغت پاتے ہی انہوں نے ڈائس پر ہمارا تعارف نامہ پیش کرکے مجھے وہاں آنے اور اسٹوڈنٹس کے ساتھ گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ کیا کہنا ہے۔ بس بولتا ہی گیا۔ یہ وہی کالج تھا جو چند سال قبل فقط داخلوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا،پروفیسر کی آمد نے اس کی رونقیں بحال کردی تھیں۔ کالج مکمل طور پر فعال ہو چکا تھا۔ اسٹوڈنٹس کے لیے ٹور کا انتظام تھا۔ اسپورٹس کا انتظام تھا مطالعہ کا کلچر عام تھا، لائبریری کو ہم نے کھلا پایا۔ کالج کے اندر گرلز کے لیے الگ سیکشن کا اہتمام تھا گرلز کے اس سیکشن کے لیے کالج کے اساتذہ بغیر کسی اضافی تنخواہ کے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ 30کے آس پاس بچیوں کو کالج کے نظام سے جڑا دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔

ایجوکیشن آفیسر کے ساتھ ملاقات:

کوئٹہ واپسی کے لیے رخت سفر باندھ چکا تھا، اطلاع ملی کہ نئے ایجوکیشن آفیسر محمد انور جمالی آواران تشریف لا چکے ہیں اور انہوں نے چارج سنبھال لیا ہے۔ ان سے نہ ملنا اور پوری صورتحال سے آگاہ نہ کرنا ایک قرض تھا،سو ہم اس قرض کو چکتا کرنے اس کے آفس چلے آئے۔کوئٹہ پہنچنے کے بعد ہمیں مختلف ذرائع سے خبریں موصول ہوتی رہیں کہ نئے ایجوکیشن آفیسران کو مختلف ہتھکنڈوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہماری بارہا ان سے فون پر بات ہوتی رہی۔ مگر نئے ایجوکیشن آفیسران اپنی پریشانی ہم سے چھپاتے رہے۔ ہماری خواہش تھی کہ نئے ایجوکیشن آفیسران ضلع کاتعلیمی نظام جو سابقہ ذمہ داران کی وجہ سے تباہی کے دہانے پرپہنچ چکا تھا اس میں بہتری لانے کے لیے اقدامات اٹھاتے مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بلکہ تکلیف کے اس منظر میں وہ زیادہ دیر آواران میں نہ ٹھہر سکے اور جلد ہی اپنا تبادلہ کر گئے آواران کا تعلیمی نظام ایک بار پھر سے لاوارث ہو چکا تھا۔

کمیونٹی کی سکولوں سے لاتعلقی:

دورانِ مہم ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہوا کہ تعلیمی نظام کی تباہی میں جس طرح محکمہ تعلیم کے ذمہ داران، عوامی نمائندگان اور مفادپرست ٹولے کا ہاتھ ہے اس پس منظر میں سماج سے جڑے افراد کو کسی طرح بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان میں خوف ہے یا خوف کا دھاک بٹھا دیا گیا ہے کہ اول تو وہ اس نظام کا حلیہ درست کرنے کے لیے سامنے نہیں آتے یا یوں کہیے کہ سکول کو تخلیق کرتے وقت کمیونٹی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا کہ جی یہ سکول آپ ہی کا ہے،اس کا نظام آپ ہی نے چلانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سکولوں کو اپناتے نہیں ہیں کہ سکول سرکاری ہے اس سے ان کا کیا لینا دینا۔ اس لیے وہ سکول پہ فوکس نہیں کرپاتے۔ یہ ان کے ذہن میں کبھی نہیں آتی کہ سکول میں پڑھ کون رہا ہے اور پڑھا کون رہا ہے۔ یہ لازمی جز ہے کہ سکول کے ساتھ جڑے رہیں۔

اسی چیز کا مشاہدہ میں اپنے گاؤں میں کر چکا تھا کہ سکول کو کھلے تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا کمیونٹی نے ایک بار بھی سکول کی حالت کا پوچھا تک نہیں کہ سکول میں کون آرہا ہے۔ بچوں کو کس طرح پڑھایا جا رہا ہے ٹیچر کے مشکلات کیا ہیں اور نہ ہی محکمہ تعلیم کے ذمہ داران نے آنے کی جسارت کی۔ یہ ایسا ہے جیسے سب ہی اس پورے سسٹم سے لاتعلق ہوں اور سکول کی ساری ذمہ داری ایک استاد کے کندھے پر لادی گئی ہے۔ آپ یہ پوچھنے نہیں آتے کہ ایک استاد بچوں کو کیا پڑھا رہا ہے یا یہ کہ ایک استاد کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ایک استاد صرف پڑھانے کا ذمہ دار ہے وہ صفائی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ پانچ گھنٹے تک پڑھانے والا استاد پینے کے پانی سے محروم ہے اور ٹوائلٹ کے نظام سے محروم ہے تو وہ پڑھائے گا کیسے۔ یہ وہ سوالات تھے جس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیاکہ سماج سے جڑے افراد کی توجہ سکول کی جانب کیسے مبذول کروائی جائے۔

رنگ تماشا کا آئیڈیا:

ہمارے پیارے آرٹسٹ دوست شرجیل بلوچ کا آئیڈیا ہمیں پسند آیا کہ سکولوں میں رنگ بھریں کمیونٹی کو متوجہ کرائیں۔ جسے انہوں نے ”رنگ تماشا“ کا نام دیا تھا۔ دیواروں کو کس طرح رنگین بنایا جاتا ہے یہ کام میں نے پہلے نہیں کیا تھا، شرجیل بلوچ نے دعوت دی کہ وہ دسمبر میں کراچی کے علاقے قیوم آباد میں ایک سکول میں رنگ تماشا کرنے جا رہے ہیں، اس رنگ تماشا میں حصہ لینے کے لیے میں وہاں چلا آیا۔ چار دن تک ہم اسی سکول سے جڑے رہے۔TCF کے اس سکول کو ہم نے سکول کے بچے اور بچیوں کے ساتھ مل کر ایسے رنگین بنا دیا کہ دیواریں خود بول رہی تھیں اور داد وصول کر رہی تھیں۔ شرجیل بلوچ نے رنگ تماشا کا آغاز اپنے آبائی علاقے مچھ کے ہائی سکول سے کیا تھا جسے وہ بڑھا رہے ہیں ہم نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں کے سکول کو رنگوں سے بھرنے کا میرا ارادہ مصمم ہو چکا تھا۔ ایک اور دوست صدیق مینگل نے اس نیک کام کے لیے کلر اور سامان مہیا کرکے ہمارے ارادوں کو حقیقت میں بدل ڈالا۔

یہ کام اکیلے ہو ہی نہیں سکتاتھا جب تک اسے کہدہ الطاف کی معاونت حاصل نہیں ہوتی جو اس سے قبل شرجیل بلوچ کے ساتھ رنگ تماشا کے ایک منصوبے میں کام کر چکے تھے۔ آئیڈیا ان کے ساتھ شیئر کرتے ہی وہ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے خوشی خوشی راضی ہو گیا۔ رنگ اور میٹیریل جھاؤ پہنچائے جا چکے تھے اب فقط ہماری وہاں موجودگی اس کام کو آغاز فراہم کر سکتا تھا۔ سو میں اور الطاف گاؤں کی طرف نکل آئے۔ گاؤں آواران ہیڈکوارٹر سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جب وہاں پہنچے تو سب سے پہلے بچوں کو جمع کرنا تھا۔ اعلان ہونا باقی تھا کہ بچے جمع ہوگئے اور دیواروں کی صفائی کا کام شروع ہو گیا۔ اس کے بعد اگلا کام آئیڈیا جنریٹ کرنا تھا کہ دیواروں کو کیا کیا خاکہ دینا ہے۔ شام کا وقت تھا ہم دیواروں کو چند خاکے دے کر باقی کام اگلے دن کے لیے وہیں چھوڑدیا۔ اگلے دن سکول کے بچے اور بچیاں تھیں ان کے ہاتھ میں رنگ اور برش تھے اور وہ دیواروں کو رنگین بنا رہے تھے۔

ہمارا یہ کام ہر آنے جانے والے فرد کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ انہیں رکنے پر مجبور کر رہا تھا انہیں رنگوں کے ساتھ مکالمہ کرنے پر اکسا رہا تھا۔ دیواروں پر رنگ بھرنے سے پہلے ہمیں یقین ہی نہیں تھا کہ ہم یہ کام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ غروبِ آفتاب کے وقت ہم اپنا کام مکمل کرنے جا رہے تھے بس ایک آخری پوائنٹ باقی رہ گیا تھا سوچ رہے تھے کہ اس میں کیا تخلیق کی جائے۔ آسمان پر چاندنظر آیا۔ ہم چاند کو دیوار پر لانے میں کامیاب ہوئے اور میں چاند کو دور سے دیکھ کر یہ محسوس کر رہا تھا کہ چاند ہماری ان حماقتوں پر ہنس رہا ہوگا یا مسکرا رہا ہوگا۔

دو دن کا کام ہم ایک دن میں مکمل کر چکے تھے،اگلی صبح جب ہم نیند سے بیدار ہوئے تو بارش زمین کو بھگو چکا تھا۔۔ چہرے پر مسکراہٹ سجاکر میں نے الطاف سے کہا کہ اچھا ہوا کہ ہم کام ختم کر گئے، الطاف نے مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ میں دے دیا۔ بارش جب چند لمحوں کے لیے تھم گیا تو ہم ایک بار پھر سے اسی مقام پرجا پہنچے جہاں ہم رنگ تماشا کر چکے تھے۔ نگاہیں جب دیواروں پر پڑیں تو تمام رنگ بیک زبان ہو کر بول رہے تھے۔وش آتکے(خوش آمدید)۔
دیواریں رنگین ہو چکی تھیں۔ اب کے بار نہ کمیونٹی اسکول کو نظر انداز کرسکتا تھا اور نہ دیگر آنے جانے والے لوگ۔