غیر سرکاری تنظیم یا این جی او قانونی حیثیت سے ترتیب پانے والا ایسے ادارہ ہوتا ہے جو کسی بھی خطے میں عام افراد تشکیل دیتے ہیں اور ان اداروں کا انتظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اس خطے میں رائج حکومت سے تعلق نہیں رکھتے۔ غیر سرکاری تنظیم یا ادارے کی اصطلاح ان اداروں کو دنیا کی حکومتوں کی جانب سے ہی دیا گیا نام ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی مخصوص خطے میں ان تنظیمات یا ادارہ جات کا حکومت وقت سے کسی بھی طرح تعلق نہیں ہوتا یا ان ادارہ جات یا تنظیمات کے افعال پر حکومت وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ایسے حالات کہ جب غیر سرکاری ادارہ جات یا تنظیمات کو مالی امداد حکومتوں کی طرف سے فراہم کی جائے تو وہاں یہ غیر سرکاری تنظیمات اپنا جداتشخص برقرار رکھتی ہیں اور کسی بھی سرکاری ملازم سے حکومت وقت سے تعلق رکھنے والے فرد کو اپنی تنظیم کا رکن بننے کا اہل قرار نہیں دے سکتیں۔ غیر سرکاری تنظیمات ان ادارہ جات کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے جو وسیع پیمانے پر سماجی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔
ان سماجی خدمات کا تعلق سیاسی رجحان سے بھی ہوتا ہے۔ نیم سرکاری ادارے جیسی حیثیت رکھنے والے ادارہ جات کے برعکس، غیر سرکاری تنظیموں کی کوئی بھی مخصوص قانونی تعریف موجود نہیں ہے۔ عام طور پر آئینی طور پر دنیا بھر میں غیر سرکاری تنظیمات کو“سول سوسائٹی کے ادارہ جات“ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی تعداد 40000 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ قومی سطح پر وجود رکھنے والی غیر سرکاری تنظیمات کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق روس میں اس وقت تقریباً 277000 جبکہ بھارت میں تقریباً 12 لاکھ سے زیادہ غیر سرکاری تنظیمات وجود رکھتی ہیں۔جبکہ پاکستان میں بھی ان تنظیمں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ان تنظیموں کا کام کسی بھی مشکل حالات میں لوگوں کی مددکرناہے ویسے عام حالت میں بھی یہ لوگوں کو مختلف اقسام کے تربیت دیتے ہیں ان کو باروزگار اور ہنر مند بنانے میں کوشاں ہوتے ہیں تاکہ لوگ باعزت طریقے سے اپنے لئے روزگار کا آغاز کر سکے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف شعبوں میں مختلف طریقے سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صحت،زراعت اور دیگر شعبوں میں بہتر طریقے سے اپنے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ہنگامی حالا ت میں بھی یہ اپنے موثر کردار ادا کرکے لاکھوں انسانوں کی جان بچانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس طرح کے ہزاروں تنظیمیں جو اپنے مدد آپ کے تحت خدمات انجام دے رہے ہیں ایدھی دنیا کا سب سے بڑا رضا کار تنظیم ہے جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس سروس موجود ہیں جس کے دفاتر اور ایمبولینس پاکستان کے ہر شہر میں موجود ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت میں 24گھنٹے مصروف عمل ہے۔ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام بھی فلاحی ادار کام کرے ہیں جن میں چند نمایاں نام موجود ہیں۔
جو عام اور ہنگامی حالات میں اپنے پارٹی کارکنوں اور دیگر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہنگامی حالات کے علاوہ عام دنوں میں بھی یہ کافی مصروف عمل نظر آتے ہیں عیدین کے موقع ہو یا دیگر تہواروں کے دوران غریب اور مزدور لوگوں میں تحفے تحائف تقسیم کرکے ان کو خوشیوں میں شریک کرتے ہیں ان کا درد دکھ بانٹتے ہیں۔ کوئی شخص اگر موذی مرض میں مبتلا ہے تو اس کی مالی مدد کرکے ان کے علاج کراتے ہیں یا ہسپتالوں میں اپنے دفاتر قائم کئے ہوئے ہیں جو بھی غریب مریض آتے ہیں ان کے آدھے خرچے اٹھا لیتے ہیں۔ یقینًا یہی انسانیت کا تقاضا بھی کہ کسی انسان کے جان بچانے کیلئے سب کو اپنے بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بلوچستان ترقی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے یہاں خشک سالی قحط،کینسر،تھیلسیمیا،یرقان،
ٹائی فائیڈ نے کئی سالوں سے ڈیرے جما لیے ہیں بچوں سے لے کر نوجوانوں اور بزرگوں تک سب اس کے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اور بنتے جارہے ہیں تدارک اور روک تھام کا کوئی خاص حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہا۔ عرب شیوخ کے خیرات سے بننے والے شیخ زائد ہسپتال کو موثر بنانے اور سہولیات دینے کی بات تو دور برحال اب اس کو مریضوں کے علاج گاہ بنانے کے بجائے تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے جس کی کئی سالوں میں اب تک ایمرجنسی فنکشل نہ ہوسکا۔ لیکن جب بھی کینسر ہسپتال کی بات ہوتی ہے۔
تو حکمران شیخ زاِئد کا نام لیتے ہیں کرونا کے قرنطینہ کا بات ہو بھی تو پہلا نام ان کے زبان پہ شیخ زائد آتا ہے 10لاکھ کے ارد گرد کے آبادی کا واحد علاج گاہ بنیادی سہولیات سے محروم تھا ہی لیکن یہ اب ان سے چھن لیا گیا۔لیکن اب بھی حکمرانوں کے ناکامی چھپانے کا واحد زریعہ بن چکاہے۔ اگر بلوچستان کے رضا کار تنظیموں کی بات کی جائے تو وہ کم وبیش کئی یا کبھی سوشل میڈیا کے حد تک نظر آتے ہیں لیکن اتنا موثر کردار دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے کہنے کو تو بلوچستان میں کئی سیاسی جماعتیں موجود ہے وفاق میں موجود جماعتوں کی بھی نمائندگی بلوچستان میں نظر آتی ہے۔
لیکن صرف نام کے حد تک کیونکہ جن سیاسی جماعتوں کے فلاحی ادارے دیگر صوبوں میں کروڑوں امداد دینے کے دعوے دار ہیں۔لیکن بلوچستان میں ان کی موجودگی صفر ہے۔ بلوچستان کے مقامی سیاسی جماعتوں کے بھی رضا کار اور رضا کارانہ تنظیمیں بہت کم یا یوں کہیے کہ نہ ہونے کے برابر ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ ان کے موثر کردار دکھائی نہیں دیتا ہے۔
“دردوار”کا نام ہمیں کہی سنائی دیتا ہے کبھی قدرتی آفات میں بلوچستان کے لوگوں کے مدد کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن عام دنوں میں جس کی جتنی عوام کو ضرورت تھی یا ہے اتنا موثر کردار نظر نہیں آتا۔چونکہ بی این پی کا شمار افرادی قوت یا نظریاتی کارکنوں کے حوالے سے بلوچستان کے بڑے جماعتوں میں ہوتا ہے. لیکن ان کارکنوں یا رضاکاروں سے “دردوار”کے پلیٹ فارم سے کوئی خاص کام نہیں لیا جارہاہے۔ اب تک دردوار کا کوئی فنکشنل مرکزی دفتر ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ایک رضا کار تنظیم کے حیثیت سے ہونا یہ چاہیے کہ بلوچستان کے ہر ضلع کے ملحقہ علاقے میں “دردوار”کا ایک دفتر ہوتا۔
جہاں کم از کم ایک ایمبولینس اور بلڈ بینک ہوتا۔ اس کے علاوہ مین شاہراہوں پر بھی دفاتر کا قیام ہوتا ضلحی سطح کا ایک کابینہ بنایا جاتا جو اس دفتری امور کو چلاتا۔ جس میں غریب و نادار لوگوں کے بلڈ ٹیسٹ فری ہوتے۔ ہر ضلع میں اوپن رضا کاروں کے رجسٹریشن کراتے۔ اور ضلع میں کم از کم دو سو رضا کار رجسٹرڈ ہوتے۔ تاکہ بوقت ضرورت وہ خون کا عطیہ کرتے اور ہنگامی حالات جیسے زلزلہ،سیلاب،قحط سالی اور کسی وبا کی صورت میں لوگوں کی مدد کرتے۔ویسے بھی بلوچستان میں جتنے لوگ اپنے موت میں نہیں مرتے اس سے زیادہ حادثات میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
بڑے شہروں میں رضاکاروں کی تعداد ایک ہزار سے پندرہ سو تک ہوتے۔یا تحصیل کی سطح پر کابینہ اور دفاتر بنتے۔بلوچستان میں اکثر مریضوں کو کراچی ریفر کیا جاتاہے تو کراچی میں بھی دردوار کا ایک مرکزی دفتر ہوتا۔جہاں وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے پہنچنے والے مریضوں کی بہتر رہنمائی کرتا پہنچنے سے پہلے ہی مریض کی انتظامات مکمل ہوجاتے تو ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے ان کا موزوں ہسپتال میں علاج ہوجاتا تو اس طرح ہم کئی قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچالیتے۔
اب “دردوار”کو بلوچستان کے عوام کے محرومیوں اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام اٹھانا چاہیے اس سے پہلے کے کئی اور زیادہ دیر ہو۔ بلوچستان کے زی شعور اور انسانیت کے درد رکھنے والے لوگوں کو بھی دردوار جیسے تنظیموں کو موثر بنانے کے لِئے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم درد مند انسانیت اور بلوچستان کے بے بسی کا ازالہ کر سکے۔ اپنے دردوں کا مدعاوا خود بن سکے۔