|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2020

کرونا وائرس کے قہرکی وجہ سے عالمی معیشت جیسے منہ کے بل گری ہو۔ 1930ء کے بعد عالمی معیشت کو کرونا وائرس کی وجہ سے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ((IMF کی پیشینگوئی کے مطابق 1930ء کے بعد یہ سال عالمی معیشت کے لیے بد ترین ثابت ہو گا۔ ادارے کے مطابق معیشت کے 3فیصد سکڑنے کا امکان ہے جو کہ 2009ء کی کساد بازاری کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

یاد رہے کہ 2009ء میں 0.1تھی۔عالمی ادا رے کے مطابق گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کو 9ٹریلین ڈالر تک نقصان ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارے کو خدشہ ہے کہ اس سال امریکی معیشت 5.9%سکڑے گی، یورو کرنسی والے یورپی ممالک کی معیشت 7.5%، جاپان5.2% جبکہ برطانیہ کی معیشت 6.5%سکڑے گی۔ ادارے کے مطابق عالمی تجارت میں اس سال 11فیصد کمی ہونے کا امکان ہے۔2021ء میں اس کی شرح نمو 8.4%ہو گی۔ کرونا وائرس کے بعد عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تیل کی پیداوار کے بڑے ممالک سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کا تنازعہ تھا جسے تیل کی جنگ کا نام دیاگیا۔

ماہرین اسے عالمی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے تھے لیکن یہ خطرہ اب ٹل چکا ہے۔ دسمبر 2016ء میں روس اور سعودی عرب نے ویانا میں گیارہ غیر اوپیک اور اوپیک ممالک کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا تھا۔ یہ معاہدہ اس لیے کیا گیا تھا تا کہ تیل کی قیمتوں کو کم نہ کیا جائے۔ یہ معاہدہ چھے ماہ کے لیے کیا گیا لیکن بعد میں اس میں توسیع کر دی گئی تھی۔ اس معاہدے کو اوپیک پلس کا نام دیا گیا۔ دسمبر 2019ء میں اس معاہدے کی توسیع کی گئی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ معاہدہ قائم رہے گالیکن چھے مارچ کو ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔

سعودی عرب نے روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی۔ روس نے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ اب وہ ویانا معاہدے سے نکل چکا ہے۔اس طرح اوپیک پلس ختم ہو گیا اور عالمی معیشت کے سر پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے اور 2008ء کی معاشی مندی کے بعد تیل کی قیمتیں سب سے کم سطح پر پہنچ گئیں لیکن 12اپریل کو تیل کا یہ تنازعہ ختم ہو گیا۔ 12 اپریل کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک معاہدہ طے پایاجس میں تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی مانگ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔

اس لیے اس معاہدے کے تحت اوپیک ممالک اور ان کے اتحادیوں میں طے پایا کہ تیل کی پیداوار 10%کم کی جائے گی۔ اگر اسے تیل کی پیداوارکم کرنے کا تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس معاہدے میں تیل کی پیداوار 9.7ملین بیرل یومیہ تک کم کرنے پر اتفاق ہو ا ہے۔ کرونا کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی مانگ میں تقریباََ ایک تہائی تک کمی دیکھی گئی ہے۔ اگر عالمی معیشت کی بات کی جائے تو یہ ایک بہت بڑا معاہدہ ہے اور عالمی معیشت پر سے ایک بہت بڑا خطرہ ٹل چکا ہے۔ کرونا وائرس کے شدید حملے کی وجہ سے دنیا کی معیشت بد ترین مشکلات سے دو چار ہو سکتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 347ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق کرونا وائرس اگر دو ماہ جاری رہتا ہے تو عالمی معیشت کو 76.6ارب ڈالر، اگر تین ماہ جاری رہتا ہے تو 155.9 ارب ڈالر اور چھے ماہ تک جاری رہنے کی صورت میں 346.9ارب ڈالر تک نقصان ہو سکتا ہے۔اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو چین کو عالمی مالیت کے 2/3کو واحدانہ طور پر برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو عالمی معیشت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

ماہر اقتصادیات مائیکل فیرولی کی مار چ میں دی جانے والی تیئسویں رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ابتدائی بے روزگاری کے دعوے آنے والے ہفتوں میں چالیس ہزار سے زیادہ ہو جائیں گے۔ ایک امریکی ماہر اقتصادیات میشل میئر کے مطابق نوکریاں، دولت اور اعتماد سب ختم ہو جائے گا۔بینک آف امریکہ کو خدشہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری کا تناسب دوگناہو جائے گا۔ جس کے بعد تقریباََہر ماہ ایک ملین نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔ کچھ دن پہلے عالمی بینک کی طر ف سے دی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء کی معیشت کی رفتار اندازوں سے 4%کم رہے گی۔

بینک کے مطابق جنوبی ایشیاء کی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے اور آٹھ ممالک میں کاروبار معطل ہے۔ رپورٹ میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء کی معیشت چالیس سال میں پہلی بار اس رفتار سے تنزلی کا شکار ہو گی۔ اب جبکہ ماہرین کے مطابق عالمی معیشت کو 1930ء کی دہائی کے بعد بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں اوپیک پلس معاہدہ یقیناََ عالمی معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے لیکن چین، امریکہ، اٹلی، سپین، اور فرانس جیسے ممالک کے معاشی بحران کو دیکھ کر واضح ہے کہ عالمی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عالمی سطح پر غیر معمولی منصوبہ بندی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔