|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2020

آواران تعلیمی و ادبی میلے کا خیال:
آواران کا سفر تمام کرکے ایک بار پھر کوئٹہ جاگزین ہو ئے۔ اب کے بار ایک نیا خاکہ ذہن میں آچکا تھا،عابد میر کے ساتھ نشست تھی ان کی جانب سے تجویز یہ سامنے آئی کہ آواران میں کتابوں کا کوئی میلہ کیوں نہیں رکھتے،دو چار دوست وہاں جائیں گے ایک دن گزار کر واپس آجائیں گے۔ خیال آتے ہی ہم اس پر کام شروع کر چکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چار سال قبل عابد میر اور ہیبتان کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ایک آن لائن نیوز ویب سائیٹ کا خیال آیا تھا۔ بعد میں وہ خیال حقیقت میں بدل گئی تھی اور ہم ”حال حوال“ ویب سائیٹ کو لانچ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

اب کوئٹہ میں رہ کر تمام تر مصروفیات آواران تعلیمی و ادبی میلے پر مرکوز ہو گئیں تھیں۔ میں اور عابد میر اس سلسلے کو آگے بڑھانے اور خیالات شیئر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم اسے فقط ایک روزہ کتب میلے تک محدود کریں گے۔ تو دوسری جانب پروفیسر محمد حسین سے روابط جاری تھے۔ پروفیسر حسین کی جانب سے بات سامنے آئی کہ جب پروگرام کرنے جا رہے ہیں تو اسے وسعت دیں۔ ان کا یہ آئیڈیا ہمیں پسند آیا، ان کی جانب سے دوسرا مشورہ یہ سامنے آیا کہ ضلع میں جب کوئی پروگرام کرنے جا رہے ہیں تو ضلع کے سربراہ کو آن بورڈ ضرور لیں۔

ہم نے کہا کہ کیوں نہیں۔ میرا اگلا فون کال ڈپٹی کمشنر آواران حسین جان بلوچ کو تھا، ان کو ہم میلے سے متعلق پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے۔ انہوں نے ہمارے خیالات سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہمیں بھرپور انداز میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بعد کے دنوں میں انہوں نے اس یقین دہانی کو عملی جامہ پہنا کر علم دوست ہونے کا ثبوت دے دیا۔ حسین جان بلوچ کا پیغام جب میں نے پروفیسر صاحب کو پہنچا دیا تو کہنے لگے کہ سمجھ لیں کہ آپ کا آدھا مسئلہ حل ہوگیا۔ ہمیں حسین جان بلوچ کی جانب سے اتنی حوصلہ افزائی کی امید نہ تھی مگر آواران میں رہ کر ایک بات کا اندازہ ضرور ہوا تھا کہ وہ تعلیمی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ہم جب بھی ان کے دفتر گئے،مشاہدے میں ایک بات آئی کہ ملنے اور ملانے والوں میں سپورٹس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے جو آتے ہیں ان سے ملتے ہیں یہ انہیں اسپورٹس سامان یا ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں۔ جب انہوں نے ہمارے پروگرام کے لیے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تو ہمیں ایک خوشگوار سا احساس دامن گیر ہوا۔ ہماری ٹیم میں پروین ناز بھی شامل ہو چکی تھیں۔ ایک اور ساتھی نجیب اللہ کو ہم نے دفاتری کاموں سے فراغت پانے کی استدعا کی اور انہیں اپنے پروگرام کا اہم حصہ بنا دیا۔

عابد میر نے شیڈول کا پہلا خاکہ بنا لیا تھا۔ شیڈول دو دن کا تھا۔ پروگرام کو ترتیب دے کر پہلے خیال آیا کہ بجٹ ہمارے پاس ہے ہی نہیں تو ہم اسے کیسے کر پائیں گے۔ پھر خیال آیا کہ چلیں دیکھتے ہیں ہوا تو ٹھیک اگر نہیں ہوا تو یہ ناکام تجربہ آگے کام آئے گا۔ہماری ٹیم میں ایک اور اہم ساتھی کا نواز فتح کی شکل میں اضافہ ہو چکا تھا بعد کے دنوں میں پروگرام کا زیادہ بوجھ انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ پروگرام کو ”آواران تعلیمی و ادبی میلہ“ کا نام دیا گیا،دو دن پر مشتمل تعلیمی و ادبی میلے کو خاکہ عابد میر نے دیا اور اس کی باقاعدہ تاریخ 13,14جنوری 2020مقرر کی گئی۔

اسی دوران میں واپس آواران آچکا تھا، اطلاع ملی کہ سکولوں کی سردی کی چھٹیوں میں توسیع کی گئی ہے،ہمیں ایک بار پھر سے تاریخ میں نظر ثانی کرنا پڑی۔ تاریخ ہم نے 20,21جنوری رکھ دیا اور مقام ڈگری کالج آواران رکھ دیا۔ آواران آمد کے بعد بہ پیادہ حالت میں کام کا آغاز کیا۔ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس سے رابطہ ہونے لگا۔ آرٹسٹ احمد خان آواران میں ہی تھے، زباد بلوچ سے ہمارا رابطہ تھا ہی۔ پروگرام سے قبل ہم نے تین روزہ آرٹ ورکشاپ منعقد کروانا تھا میلے کی مصروفیات دیکھ کر ہم نے ورکشاپ کی تاریخ تعلیمی و ادبی میلے کے بعد رکھ لیا۔

اس ورکشاپ کے لیے ٹیم بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نے سیکرٹری کلچر ظفر بلیدی سے ملاقات کی تھی جس کے لیے آرٹ کا سامان ہمیں انہوں نے مہیا کیا تھا۔ آرٹ گیلری کے ڈائریکٹر خدارحیم بلوچ پہلے پہل آنے کے لیے حامی بھر چکے تھے بعد میں ان کی مصروفیات آڑے آگئیں،انہوں نے یہ ذمہ داری زباد بلوچ کو سونپا۔ آواران پہنچ کر سب سے اہم مسئلہ بیس کیمپ کا تھا جہاں رہ کر ہم سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہم نے جگہ کا انتخاب کرنا تھا۔ آزات فاؤنڈیشن کا دفتر بوقت ضرورت کام آیا۔ یہ دفتر پروگرام کے اختتام تک ہمارا بیس کیمپ رہا۔

یہ اپنے ہی زاہد مینگل تھے جنہوں نے جگہ کی پیشکش کرکے ہمارا ایک مشکل کام آسان کیا تھا۔ آواران تاحال دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو پایا۔ ایک کٹا ہوا ضلع ہے اس لیے یہاں ہوٹلنگ اور رہائش کا کوئی انتظام موجود نہیں اور نہ ہی اس مد میں کوئی اپنا سرمایہ لگانے کو تیار ہے۔ اہم مسئلہ مہمانوں کے لیے جگہ کا انتظام کرنا تھا سوچ و بچار میں پڑگئے کہ رہنے کا انتظام کہاں کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر آواران سے ہم اپنا پروگرام شیڈول شیئر کر چکے تھے۔ مہمانوں کے لیے طعام و قیام کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے کر ہمارا ایک بہت بڑا کام آسان کیا۔

دوسری جانب پروگرام کو ابتدا فراہم کرنے کے لیے ہمیں اپنے پیارے عزیز احمد جمالی کا ڈونیشن کام آیا جس نے اس کام کو آغاز فراہم کرنے کے لیے پہلی اینٹ کا کردار ادا کیا،یہ رقم شیلڈ، بینرز، سرٹیفکیٹس اور دیگر ضروری سامان کی خریداری میں کام آئے۔ جگہ کے لیے ہم نے سب سے پہلے سرکٹ ہاؤس کا انتخاب کیا تھا مگر وہاں سیکورٹی فورسز نے پہلے سے قبضہ جما لیا تھا۔ دو کمرے ہمیں الاٹ کیے گئے مگر یہ کہہ کر بعد میں ہم نے مرد مہمانوں کے لیے پریس کلب کو ہی بہتر جانا کہ مہمان ڈسٹرب نہ ہوجائیں۔ پریس کلب وہ دوسرا مقام تھا جس نے ہمارا کام مزید آسان کیا۔

اس دوارن بارش کی پیشنگوئیاں شروع ہو گئیں۔ گوادر کتب میلہ جس نے 23جنوری کو منعقد ہونا تھا،کے منتظمین بارش کے پیش نظر میلے کو مؤخر کر چکے تھے۔ اب یہ ہم پر منحصر تھا کہ ہم پروگرام کو مؤخر کریں یا جاری رکھیں۔ مگر ہم تہیہ کر چکے تھے کہ پروگرام میں پانچ افراد ہی کیوں نہ آئیں،ہم یہ پروگرام ہر حال میں کریں گے۔ البتہ ڈگری کالج آواران میں جگہ کی کمی اور بارش کے پیش نظر ہمیں مقام تبدیل کرنا پڑا۔

اب کے بار یہ مقام ماذل ہائی سکول آواران کا ہال ٹھہرا۔ پروگرام کی تیاریاں جاری تھیں کہ اطلاع ملی کہ پروفیسر محمد حسین کا تبادلہ ڈگری کالج کوئٹہ بطور پرنسپل کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پروفیسر شکیل بلوچ نئے پرنسپل تعینات کیے جا چکے ہیں۔ آپ کوئی پروگرام ترتیب دے چکے ہوں اور اچانک آپ کا اہم ساتھی آپ سے بچھڑ جائے یا الگ ہوجائے تو پروگرام پر لامحالہ اثر پڑے گا مگر سب دوستوں نے اس صورتحال کو پروگرام پر اثرانداز نہ ہونے دیا۔ پروگرام کی تیاریاں جاری رہیں۔