امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ ان کے غیر سنجیدہ بیانات اور اقدامات مخالفین کے لیے فائدے کا باعث بھی بنتے ہیں۔حال ہی میں پیو ریسرچ نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق مختلف ممالک کے لوگ مجموعی طور پر امریکی صدر ٹرمپ پر درست اقدامات کرنے سے متعلق کم بھروسہ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 29%یہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی امور پر درست اقدامات کر سکتے ہیں۔
خصوصاً جب سے کرونا وائرس کی وبا امریکہ میں شروع ہوئی ہے عالمی ادارہ ہو،کوئی ملک ہو یا کوئی صحافی، صدر ٹرمپ تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔جب covid-19چین کے شہر ووہان سے شروع ہو ا تو صدر ٹرمپ نے چین کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور کرونا وائرس کو چین وائرس کا نام دیا جس پر چین کے حکام نے نہ صرف سخت ردِ عمل کا اظہار کیا بلکہ امریکہ پرالزام عائد کیا کہ کرونا وائرس چین میں امریکی فوجیوں نے پھیلایا ہے۔
ٹرمپ اور امریکی حکام کے درمیان یہ لفظی جنگ کچھ دن چلتی رہی اور عالمی سیاست میں روایتی حریف سمجھے جانے والے امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹا گون میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کو چین کی تجربہ گاہ میں حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر نہیں بنایا گیا۔ جنرل ملی نے کہا کہ کروناو ائرس قدرتی طور پر ہی ماحول میں موجود تھا۔ جنرل ملی نے چین پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔
صد رٹرمپ نے چین کے بعد عالمی ادارہ صحت کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
کچھ دن پہلے امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر چین کی طرفداری کا الزام عائد کیا۔ صدرٹرمپ کا کہنا تھا کہ تائیوان نے انسانوں سے انسانوں میں وائرس منتقلی کی وارننگ دی تھی۔ لیکن عالمی ادارہ صحت نے اسے نظر انداز کیا اور بیجنگ کی مدد کی۔ اور اب جبکہ صدر ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کی امداد بند کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر انھیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر اقوامِ متحدہ نے بھی عالمی ادارہ صحت کا دفاع کیا۔ چینی وزارتِ خارجہ نے بھی شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔
چین کے علاوہ جرمن وزیرِ خارجہ نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ وقت عالمی ادارہ صحت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔ حتیٰ کہ یورپی یونین کی سر براہ نے بھی صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ دو دن پہلے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں کرونا سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے ایک خاتون صحافی پر برس پڑے۔ بریفنگ کے دوران ایک امریکی ٹی وی کی خاتون رپورٹر نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے فروری میں سفری پابندیاں لگانے کے بعد وبا سے متعلق متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے۔
صحافی نے پوچھا کہ آپ نے کرونا سے نمٹنے کے لیے ہسپتال کیوں نہیں بنائے۔ ہمارے دو کروڑ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ صحافی کے ان تلخ سوالات پر ڈونلڈ ٹرمپ برہم ہو گئے اور صحافی کو ”جعلی“ کہہ دیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ پہلے بھی کئی صحافی صدر ٹرمپ کے رویے کا نشانہ بن چکے ہیں۔2017ء میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں ایک خاتون صحافی کو پاگل کہہ دیا تھا۔جب سے کرونا وائرس نے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس وقت سے امریکی صدر تنقید کی زد میں ہیں۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے حکومت کی طرف سے کرونا کے خلاف کیے گئے اقدامات کو ناکافی قرار دیا۔
نینسی پلوسی نے کہا تھا کہ حکومت کی طر ف سے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں اور اب عالمی ادارہ صحت کی فنڈنگ روکنے پر بھی وہ میدان میں آگئی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اس اقدام سے عوام کی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کرونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ کو لیڈ کر رہا ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کے اس اقدام کو غیر منطقی وغیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اس کو فوراََ چیلنج کیاجائے۔ نینسی پلوسی امدادی چیک پر صدرٹرمپ کا نام چھپوانے پر بھی شدید تنقید کر چکی ہیں۔ سابق صدارتی امید وار برنی سینڈر نے بھی صدرٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی کمزوریوں کے باعث امریکیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں۔
ویسے تو صدر ٹرمپ اپنے متنازعہ اقدامات کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتے ہی ہیں لیکن خاص طور پر اس موقع پرکہ جب امریکہ میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں اورامریکہ میں کرونا سے متاثر ین کی تعداد پونے سات لاکھ جبکہ مرنے والوں کی تعداد 34ہزار ہو چکی ہے، صدر ٹرمپ پر تنقید کا سلسلہ دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی لحاظ سے امریکہ کا مستقبل خطرے میں ہے۔
اوراسے مستقبل میں کئی سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی نظراسی سال ہونے والے صدارتی انتخابات پر بھی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس نے امریکہ سے زیادہ امریکی صدر کو متاثر کیا ہے۔