ناوول کورونا (کوویڈ19-) جس نے دنیا بھر میں تباہی مچا دی ہے اور آدھی سے زیادہ دنیا لاک ڈاؤن ہوچکی ہے۔ عالمی تجارتی منڈیاں خسارے میں جارہی ہیں، پیداواری عمل تقریباً رک چکا ہے، ایسے حالات میں پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ دنیا کے ترقی پذیر ممالک جو اپنی اقتصادیات و معیشت بچانے کے لئے پہلے سے ہاتھ پیر مار رہے تھے وہ بھی تجارتی کساد بازاری کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ کورونا (کووڈ19-) وائرس پاکستان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے۔ وفاقی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اس سے نبردآزما ہونے کے لئے کوشاں ہے۔
اسی تسلسل میں بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے موثر اقدامات میں مصروف ہے، گو کہ یہ وائرس تفتان بارڈر کے راستے ایران سے پاکستان پہنچا اور سب سے پہلے انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال میں اس کا سامنا بلوچستان کی حکومت کو کرنا پڑا ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اس وقت وفاقی حکومت سمیت تمام صوبوں کی حکومتوں کو اس صورتحال کا نہ تو علم تھا اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لئے کوئی حکمت عملی تھی اور یہ امر بھی اہم ہے کہ تفتان بارڈر سے آنے والے زائرین میں سے 80 فیصد کا تعلق دوسرے صوبوں سے تھا۔
جس کا تمام بوجھ بلوچستان حکومت کے سر آپڑا بلکہ یہ صورتحال اسی وقت گمبھیر ہوگئی جب بارڈر پار سے آنے والوں نے حکومت سے تعاون کی بجائے وہاں قائم کئے گئے قرنطینہ مراکز سے فرار ہونا شروع کردیا جو اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کے لئے بہت خطرناک تھے۔ بلوچستان صوبائی حکمت جو مالی اعتبار سے پہلے ہی کمزور تھی اور پھر اس ناگہانی صورتحال کے اچانک سر پر آن پڑنے سے حکومت کے لئے مسائل بڑھ گئے لیکن وزیراعلیٰ جام کمال خان نے انتہائی ثابت قدمی اور ذہانت و فراست سے اس ناگہانی مشکل کا نہ صرف سامنا کیا۔
بلکہ اپنی کابینہ اور محکموں کے سربراہان کے ساتھ باہمی مشوروں کے بعد اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں نہ صرف کامیاب ہوگئے بلکہ یہاں کے کاروباری و دیہاڑی دار طبقے کے لئے انتہائی مناسب حکمت عملی اپنا کر انہیں مالی طور پر متاثر ہونے سے بچا لیا اور تقریباً 24 روز کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد وفاقی حکومت کی طرح صوبے میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ وزیراعلیٰ نے انتہائی تیز رفتاری سے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے آج انہی کی بدولت الحمداللہ بلوچستان میں صرف 232کورونا مریض ہیں اور 2 افراد کی اموات ہوئی۔
جبکہ ایک سو سے زائد مریض صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں سب سے اہم چیلنج ڈاکٹروں و پیرامیڈیکل سٹاف کے لئے احتیاطی معاملات کا تھا جس کے لئے نہ صرف انتہائی اہم و ضروری وائرس سے بچاؤ کے لباس و کٹس شامل تھیں جنہیں پہنے بغیر ڈاکٹر و عملہ کورونا مریضوں کا علاج نہیں کرسکتا تھا۔ صوبائی حکومت کو ایک جانب تفتان بارڈر پر قائم قرنطینہ مراکز کو مزید موثر بنا کر وہاں طبی عملے کو تعینات کرنا تھا اور دوئم کوئٹہ سمیت صوبے بھرمیں اس کے پھیلاؤ کو نہ صرف روکنا تھا بلکہ ہر شہر میں قرنطینہ مراکز قائم کرنا تھا جبکہ ہمارا طبی عملہ اس ضمن میں باقاعدہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔
صوبے کے عوام اپنے ڈاکٹروں و طبی عملے اور فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے انتہائی قلیل وسائل میں رہ کر مریضوں کی دیکھ بھال شروع کی۔ صوبائی حکومت نے فروری کے آخری ہفتے میں تفتان بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کردیئے اور وہاں آنے والے افراد کے ٹیسٹ شروع کئے، چونکہ صوبائی حکومت کے پاس ٹیسٹ کٹس بھی کم تھیں اس لئے اسے شروع میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
صوبائی حکومت نے اس کے ساتھ ہی کوئٹہ ٹی بی سینٹوریم میں اور شیخ زید ہسپتال میں فوری طور پر آئسولیشن وارڈز قائم کردیئے اور ڈاکٹروں و طبی عملے کو وہاں تعینات کردیا گیا، جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک کنٹرول روم قائم کرکے صوبے بھر کی صورتحال کو مانیٹر کرنا شروع کردیا گیا۔ شروع شروع میں وائرس بارڈر پار آنے والے افراد میں پایا گیا لیکن مارچ کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ شہر کے چند مقامی افراد میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی اور موجودہ صورتحال میں صوبے میں 85 مریض مقامی شہری ہیں۔
جو خطرناک اشارہ ہے کہ ہماری ذرا سی بے احتیاطی سے یہ وائرس پھیل سکتا ہے، اس لئے صوبائی حکومت لوگوں سے بار بار اپیل کررہی ہے کہ وہ سماجی فاصلوں اور خود کو تنہا رکھیں۔ اس بیماری کا بہترین علاج بھی یہی ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ جب کراچی میں 26 فروری کو پاکستان میں پہلے کورونا مریض کی تشخیص ہوئی تو اسی روز رات گئے صوبائی وزیر تعلیم نے صوبے بھر کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا۔
یہ انتہائی اہم اور ضروری اقدام تھا، سندھ حکومت جہاں کورونا کا مریض موجود تھا اس نے اگلے روز تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس تمام ہنگامی صورتحال کو جس انداز میں قابو کیا اس میں عوام کا بھی تعاون شامل ہے۔ صوبائی حکومت نے فوری طور پر شہر میں کورونا ٹیسٹوں کی تعداد بڑھانے کے لئے اقدامات شروع کئے ہیں اور ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق بہت جلد صوبے میں روزانہ ایک ہزار سے زائد ٹیسٹ کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ آج 15 اپریل سے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے۔
لیکن پھر بھی عوام الناس سے بھرپور اپیل ہے کہ وہ آئسولیشن یعنی تنہا رہنے اور ایک دوسرے سے ملنے سے گرز کریں اور نہ صرف اس پر سختی سے عمل کریں بلکہ اپنے خاندان کے دیگر افراد، بچوں اور خواتین کو بھی اس پر سختی سے عملدرآمد کروائیں۔ صوبائی حکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں ریپڈ ریسپانس ٹیموں کا قیام عمل میں لائی ہے۔ یہ ٹیمیں کسی بھی علاقے میں کورونا کے حوالے سے مشتبہ فرد کو اطلاع ملنے پر فوری طور پر نزدیکی قرنطینہ مرکز پہنچائیں گی۔
قائم کی گئی ان ٹیموں کی تعداد 90 ہے، عوام الناس سے کہا گیا ہے کہ کورونا کے کسی بھی مشتبہ شخص کو فوری طور پر سب سے الگ تھلگ کردیا جائے اور پھر ریپڈ ریسپانس ٹیموں کو ہیلپ لائن (1122) یا موبائل نمبر 03331032988, 03167861122 پر اطلاع دیں۔ یہ ٹیمیں فوری طور پر ایمبولینس کے ہمراہ مریض کو لینے کے لئے پہنچں گی۔ ہمیں حوصلے، ہمت اور بہادری سے اس مہلک بیماری کا سامنا کرناہے اور حکومتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ ہم سب سجدہ ریز ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی کے طلب گار ہیں۔ بے شک وہ معاف کرنے والا ہے وہ ہمیں ضرور معاف کرے گا اور اس مشکل سے ہمیں نکالے گا، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
صوبائی حکومت نے اس کے ساتھ ہی کوئٹہ ٹی بی سینٹوریم میں اور شیخ زید ہسپتال میں فوری طور پر آئسولیشن وارڈز قائم کردیئے اور ڈاکٹروں و طبی عملے کو وہاں تعینات کردیا گیا، جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک کنٹرول روم قائم کرکے صوبے بھر کی صورتحال کو مانیٹر کرنا شروع کردیا گیا۔ شروع شروع میں وائرس بارڈر پار آنے والے افراد میں پایا گیا لیکن مارچ کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ شہر کے چند مقامی افراد میں بھی وائرس کی تشخیص ہوئی اور موجودہ صورتحال میں صوبے میں 85 مریض مقامی شہری ہیں۔
جو خطرناک اشارہ ہے کہ ہماری ذرا سی بے احتیاطی سے یہ وائرس پھیل سکتا ہے، اس لئے صوبائی حکومت لوگوں سے بار بار اپیل کررہی ہے کہ وہ سماجی فاصلوں اور خود کو تنہا رکھیں۔ اس بیماری کا بہترین علاج بھی یہی ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ جب کراچی میں 26 فروری کو پاکستان میں پہلے کورونا مریض کی تشخیص ہوئی تو اسی روز رات گئے صوبائی وزیر تعلیم نے صوبے بھر کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا۔
یہ انتہائی اہم اور ضروری اقدام تھا، سندھ حکومت جہاں کورونا کا مریض موجود تھا اس نے اگلے روز تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس تمام ہنگامی صورتحال کو جس انداز میں قابو کیا اس میں عوام کا بھی تعاون شامل ہے۔ صوبائی حکومت نے فوری طور پر شہر میں کورونا ٹیسٹوں کی تعداد بڑھانے کے لئے اقدامات شروع کئے ہیں اور ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق بہت جلد صوبے میں روزانہ ایک ہزار سے زائد ٹیسٹ کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ آج 15 اپریل سے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے۔
لیکن پھر بھی عوام الناس سے بھرپور اپیل ہے کہ وہ آئسولیشن یعنی تنہا رہنے اور ایک دوسرے سے ملنے سے گرز کریں اور نہ صرف اس پر سختی سے عمل کریں بلکہ اپنے خاندان کے دیگر افراد، بچوں اور خواتین کو بھی اس پر سختی سے عملدرآمد کروائیں۔ صوبائی حکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں ریپڈ ریسپانس ٹیموں کا قیام عمل میں لائی ہے۔ یہ ٹیمیں کسی بھی علاقے میں کورونا کے حوالے سے مشتبہ فرد کو اطلاع ملنے پر فوری طور پر نزدیکی قرنطینہ مرکز پہنچائیں گی۔
قائم کی گئی ان ٹیموں کی تعداد 90 ہے، عوام الناس سے کہا گیا ہے کہ کورونا کے کسی بھی مشتبہ شخص کو فوری طور پر سب سے الگ تھلگ کردیا جائے اور پھر ریپڈ ریسپانس ٹیموں کو ہیلپ لائن (1122) یا موبائل نمبر 03331032988, 03167861122 پر اطلاع دیں۔ یہ ٹیمیں فوری طور پر ایمبولینس کے ہمراہ مریض کو لینے کے لئے پہنچں گی۔ ہمیں حوصلے، ہمت اور بہادری سے اس مہلک بیماری کا سامنا کرناہے اور حکومتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ ہم سب سجدہ ریز ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی کے طلب گار ہیں۔ بے شک وہ معاف کرنے والا ہے وہ ہمیں ضرور معاف کرے گا اور اس مشکل سے ہمیں نکالے گا، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔