|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

یہ بات بھی سچ ہے سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی عظمت ورفعت کی ایک درخشندہ مثال ہے اورترک ڈرامہ ارتغرل میں اس کی بہترین اندازمیں منظرکشی کی گئی ہے۔لیکن کیاہم برصغیرکے مسلمانوں کے پاس مقامی مسلم سپہ سالاروں کی اس جیسی مثالیں موجودنہیں ہیں؟

کیاپاکستان اور بھارت کے مسلمان کوئی سیریزمحمدبن قاسم، محمود غزنوی، محمد غوری،علاؤالدین خلجی،خان نوری نصیرخان، غیاث الدین بلبن، التمش، شیر شاہ سوری یا مغل سلطنت پر نہیں بنا سکتے؟

ہم نے اقلیت میں ہونے کے باوجود برصغیر پرایک ہزارسال حکومت کی ہے کیا یہ عام بات ہے؟

کیا 17 سال کامحمد بن قاسم ایک عظمت کا نشان نہیں جس نے داہر جیسے زیرک راجہ کی زبردست فوج کو شکست دیکر حسن سلوک کے وہ نقوش چھوڑے کہ جب تین سال کے بعد وہ 20 سالہ نوجوان واپس لوٹ رہا تھا تو بت پرستوں کی آنکھیں اشکوں سے نم تھیں۔ کیا محمود غزنوی خراج تحسین کے قابل نہیں جس نے غزنی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے برصغیر میں طاقت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔۔جو پشاور سے فتح کا آغاز کرتا ہے اور بھیرہ، ملتان، نگرکوٹ سے ہوتا ہوا پنجاب تک پہنچ جاتا ہے۔۔پھر نہ تھانیسر بچتا ہے، نہ قنوج نہ ہی گوالیار و سومنات۔

کیا محمد غوری (1162-1206) پر کوئی سیریز نہیں بننی چاہیئے جس نے پرتھوی راج سے شکست کا بدلہ لینے میں سال بھی نہ لگایا۔۔۔ وہ چین سے نہ بیٹھا جب تک 1192 میں اسی میدان میں راجپوت پرتھوی راج کی طاقت ور فوج کو شکست نہ دے دی جس میدان میں اسے 1191 میں فتح نصیب نہ ہو سکی تھی۔۔ انڈیا والے آج بھی اپنے میزائلوں کے نام پرتھوی رکھتے ہیں کیوں کہ اس نے ایک بار محمد غوری کو شکست دے دی تھی۔۔

گجرات، لاہور، دہلی، اجمیر،بہار،بنگال اور اچ اس کے حملوں کی شدت نہ برداشت کرتے ہوئے اس کی جھولی میں آگرے تھے۔۔

کیابلوچستان کے عظیم سپوت خان نوری نصیر خان کے اوپر کوئی سیریز نہیں بننی چاہیئے جو انگریز سامراج کیخلاف بلوچستان سے نکل کر دہلی پہنچ گئے آج تک دہلی کے مین دروازے پر اسکے تلوارکی نشانات موجود ہیں۔۔۔؟

کیا غیاث الدین بلبن پر کوئی سیریز نہیں بننی چاہیئے جس نے منگولوں جیسے خونخوار لشکر کو کئی سال پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی سرحدوں سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔۔۔ جس کے بہترین سپہ سالاروں محمد اور بغرہ نے منگولوں سے 1286میں زبردست جنگ لڑ کر شکست دی اور گورنر محمد خود شہادت سے سرفراز ہوا۔۔

کیا علاؤالدین خلجی جیسے بہترین منتظم پر کچھ بننانہیں چاہیے جس کے دور میں برصغیر کے طول و عرض میں چیزوں کے یکساں دام تھے اور ملاوٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جس نے 1297 میں منگولوں کو زبردست شکست دی۔۔اس کے دو سپہ سالار ظفر خان اور الغ خان تو ایسے تھے جن سے منگول بھی کانپتے تھے۔1299 میں ظفر خان نے حملہ آور منگول فوج کی بہترین انداز میں طبیعت صاف کردی تھی۔۔ یہ بات تاریخ کے گوشوں میں محفوظ ہے اگر کسی منگول کا گھوڑا کہیں پانی نہیں پیتا تھا تو وہ اسے جھڑک کر کہتا تھا کیا تو نے ظفر خان کو دیکھ لیا جو ڈر کے مارے پانی نہیں پی رہا؟

شیر شاہ سوری؟ کیا نام کے آگے بھی کچھ کہنا ضروری ہوگا؟

یہ وہ نام ہے جس سے شاید یورپین آج بھی سیکھتے ہیں۔

پھر ظہیرالدین بابر، جلال الدین اکبر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالمگیر وہ نام ہیں جن پر کوئی ارتغرل جیسی سیریز نے نہ بنا کر اپنی مسلم تاریخ سے انصاف نہیں کیا۔
ارتغرل سیریز میں ابن العربی کے تصوف سے بھرپور بہترین کردار کو دکھایا گیا۔ کیا یہاں ہمارے پاس حضرت معین الدین چشتی، حضرت علی ہجویری، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت بابا فرید، حضرت شیخ بہاوالدین زکریا وغیرہ جیسے تصوف کی مثالیں موجود نہیں جن کی خانقاہوں میں حاضری کو بادشاہ وقت اپنے لیے اعزاز خیال کرتے تھے۔

غرض! برصغیر کے مسلمانوں کو بھی اپنی تاریخ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ویسے ہی جیسے ترکی نے سلطنت عثمانیہ کو یاد کرکے کیا ہے۔۔!!!