|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2020

کوئٹہ : تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کے زیر اہتمام گزشتہ روز بی ایم سی میں مظاہرہ ہوا مظاہرے سے چیئرمین تحریک بحالی بی ایم سی حاجی عبداللہ خان صافی وائس چئرمین ڈاکڑ الیاس بلوچ جنرل سیکرٹری میر ذیب شاھوانی اور باسط شاہ نے خطاب کیا مقررین نے کہا کہ اعلیٰ حکام اور صوبائی وزرا کے ساتھ معاہدے کے تحت احتجاج موخر کیا گیا تھا۔

معاہدے کو معزز ہائیکورٹ کے جج کی بھی حمایت حاصل تھی مگر بد قسمتی سے مقررہ وقت گزنے کے بعد کسی قسم کی پش رفت معاہدے کے حوالے سے سامنے نہیں آئی بلکہ احتجاج کی پاداش میں ملازمین کا استحصال میں مزید تیزی لائی گئی تنخواہوں کی بندش تنخواہوں سے کٹوتیاں اور گورنر بلوچستان کے ہدایات کے برعکس کنٹریٹ ملازمین کی تعیناتیاں کی گئی ہیں اسی طرح سیلف فنانس سیٹوں کی منسوخی کی بجائے ملازمین کے بچوں کی سیٹں منسوخ کی گئی اس کے باوجود بچوں کے منتخب ہونے کے طلباء کے مسائل ہوں داخلہ پالیسی ہو یا ادارے میں ترقیاں صرف اور صرف ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جارہی ہیں جبکہ ذاتی رنجش کی بنیاد پر انتقامی کاروائیاں کی جارہی ہیں۔

جسٹرار ملازمین کو ہراساں کر رہیں ہیں صوبے میں ہیلتھ کے حوالے سے نمایاں خدمات سرانجام دینے والے اور کرونا کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے قابل احترام پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفےٰ وردگ سے ناروا رویہ رکھنے ہراساں کرنے اور نازیباں الفاظ استعمال کرنے پر رجسٹرار کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا عمل میں نہ آنا تشویشناک ہے دو سال میں یونیورسٹی اب تک نہ تو سروس رولز وضع نہیں کیے جاسکے۔

ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو ادائیگیاں نہ کی جاسکی ہیں اور نہ ہی پے سلف جاری کیا تاکہ تنخواہوں کی کٹو تیوں کا پتہ چل سکتا ہم نے ہمیشہ شفافیت کا مطالبہ کیا جبکہ ادارہ شفافیت سے نظریں چْرا رہا ہے انتظامیہ کا ادارے میں شفافیت سے گریز سوالات کو جنم دے رہا ہے مقررین نے کہا کہ ہم نے قانون کی بالا دستی کا مطالبہ کیا تو ہمارے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔

مقررین نے کہا کہ مذاکرات کی آڑ میں تحریک کو ختم کرنا حکومت کی خام خیالی ہے جب تک استحصال جاری رہے گا ملازمین و طلباء پر ظلم ہوتا رہے گا تحریک جارہی رہے گی بی ایم سی بحالی پورے صوبے کے مفاد میں ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یونیورسٹی کے ملازمین کرونا کے خلاف فرنٹ لائین پر لڑھ رہے ہیں جن میں ہمارے دو ملازمین کرونا کا شکار ہوچکے ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی مراعات نہیں دی جارہی ہے۔

انصاف کا تقاضہ ہے کہ یونیورسٹی کے ملازمین جو تدریسی ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہیں ہیں انکو دیگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس سٹاف کے طرز پر رسک الاؤنس ہیلتھ پرفیشنل،الاؤنس اور اعزازی تنخواہیں جاری کیے جاہیں۔

مقررین نے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں پارٹ ٹام ملازم خاکربوں کی تنخواہیں فی الفور جاری کی جائے اور ملازمین کی تنخواہوں سے کی گئی کٹوتیاں واپس کی جائے اسی طرح اب تک جن ملازمین کی تنخوائیں جارہی نہیں ہوئی انکو فی الفور جاری کیاجائے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کیے گئے مطالبے کے مطابق بولان میڈیکل کالج بحال کرے اور ملازمین و طلباء کے خلاف انتقامی کارروائیاں روک دے اور بلاتاخیر طلباء سکالرشپ جاری کیجائے۔

مقررین نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پورے دنیا کے بحران کا بخوبی اندازہ ہے مگر اس بحران کے دوران اگر استحصال جاری رکھا جا سکتا ہے تو احتجاج بھی کیا جاسکتا ہے مقررین نے کہا کہ رمضان میں احتجاج کے حوالے سے وزیراعلیٰ و گورنر ہاوس کا گھیراؤ کیا جائے گا جس پر مشاورت جارہی ہے لہذا حکومت معاملے کی نوعیت کو سمجتھے ہوئے بولان میڈیکل کالج کو بحال کرے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرے طاقت کا استعمال تحریک کو مزید بڑھاوا دے گا۔