پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی جسکا مقصد غریب طبقے کی مالی مدد کرناتھا۔ پہلے تو 1000 روپے رکھے گئے جسے جولائی 2013 میں بڑھا کر 1200 روپے کیا گیا،اسکے بعد جولائی 2014 میں بڑھاکر 1500 اور جولائی 2015 میں 1566 کیا گیا جسے سہ ماہی Card Debit BISPکے ذریعہ مہیا کیا گیا۔ ATM سسٹم سے منسلک اس پروگرام سے پیسے نکالنے میں کافی آسانی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے BISP کو باہیو میٹرک سسٹم میں رکھا اور یوں فرنچائز والوں کو حکومت کی طرف اجازت مل گئی۔
کہ عورتیں بازار میں آکر فرنچائز سے یکے بعد دیگرے اپنی شناختی کارڈ نمبر دیں اور اپنی انگلی مشین پہ رکھ دیں اسکے بعد پیسے لے جاہیں۔یہیں سے حکمرانوں کی پالیسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بازاروں میں جب عورتیں آتی ہیں انتہائی غربت کی، تنگی کے عالم میں جسکا احساس کسی کو معلوم ہے تو خود انہیں ہی معلوم ہے۔ بہت سی عورتوں کو 100 کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی پیسے نہیں ملتے کیو نکہ فرنچائز مالکان کی صلاحیت اتنی نہیں ہوتی کہ اتنے مستحق کو پیسے دیں جتنا بھیڑ لگا ہے۔اور فرنچائز مالکان غرباء کے پیسے سے اپنا حصہ بھی کاٹ لیتے ہیں حرام کو حلال سمجھ کر۔
جب ماہیں، بہنیں فرنچائز میں آتی ہیں جم غفیر کی تعداد میں غربت کی آخری لکیر کا اندازا با آسانی لگایا جاسکتا ہے اس بڑی تعداد میں مستفید صرف چند ہی لوگ ہوتے ہیں اکثر ماہیں بہنیں مایوسی سے کہتی ہیں کہ میری انگلی مشین پہ کام نہیں کررہی جسکی وجہ معلوم کی تو بہت دکھ ہوا۔ غریب ماہیں اتنا کام کرتی ہیں انکی انگلیاں تک متاثر ہوجاتی ہیں اور سہ ماہی الاؤنس سے محروم ہوجاتی ہیں اور یہ مسلم لیگ(ن) کی پالیسی تھی کہ حکومت وقت کو معلوم ہو واقعی ہی پیسے مستحق کو ملے ہیں مگر حکمران اس بات سے لاعلم ہیں کہ ماہیں کام کاج کے ہاتھوں اپنی انگلیاں بھی متاثر کرچکی ہیں۔
جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کردیا گیاور احساس پروگرام رکھاگیا۔ اس حالت کو دیکھ لیں کہ ماہیں صبح سے لیکر شام تک سڑکوں پر کھلے آسمان تلے اس گرمی میں کھڑی ہو کر صرف 4500 (جو آجکل اس عالمی وباء کی پیش نظر 12000 روپے خاص مدت کے لیے رکھی گئی ہے)کے انتظار میں چار سے پانچ دن اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں۔جہاں نہ پینے کی پانی میسر نہ حکومت یا مخیر حضرات انہیں کھانا مہیا کرتے ہیں، بس اس کڑکتی دھوپ میں جب بھی انہیں دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتاہے۔
کیونکہ ان میں بہت سی بوڑھی عورتیں بھی ہیں جو کھڑی نہیں ہوسکتیں اور سڑکوں پر بیٹھ کر باری کا انتظار کرتی دکھا ئی دیتی ہیں اور بہت سی مجبور ماہیں اپنے چھوٹے بچو ں کو اٹھا کر اپنی باری کے انتظار میں ہوتی ہیں یقیناً ایک مہذب معاشرہ کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ بازاروں میں نہ فرنچائز میں واش روم کی سہولت موجود ہے۔اس وقت BISP جو آجکل احساس پروگرام ہے جو ATM پہ منسلک تھا نہ تو اتنی جم غفیر تھی بازاروں میں اور نہ ماؤں بہنوں کی اسطرح سڑکوں پر تذلیل ہوتی تھی کیونکہ یہ فرنچائز اور باہیو میٹرک کا نظام کافی لمبا ہے۔
ATM سے پیسے نکالنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا اگر توڑی سی ٹریننگ دی جائے غالباً عورتیں بلے ناخواندہ ہوں مگراکثریت اس قابل ہوجائینگی کہ خود پیسے نکال سکیں۔اور اسطرح سڑکوں پر ضرورت مندوں کی تذلیل کے بعد پیسے مہیا کرنا میرے مطابق تو آپ گناہ میں بھی حصہ دار ہیں۔صدقہ دو ضرورت مندوں کو مگر عزت کے ساتھ۔