|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2020

دُنیا کے مختلف ممالک اپنے دستایب وسائل اور حکمت عملی کے تحت کرونا وائرس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ چین جہاں سے اس وباء نے جنم لیا اس کے صوبے ہو بئی کے شہرووہان کو بری طرح متاثر کیا۔وہاں چائنا نے بہت جلد وائرس کو پھلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پرکافی حد تک قابو بھی پالیا۔اس کے علاوہ وہ ممالک جہاں بہترین انتظامات کئے گئے احتیاطی تدابیر و اقدامات کے علاوہ ٹیسٹنگ کو اولیت دی اور عوام نے کئی ماہ تک لاک ڈاون جیسے جبر کو برداشت کرکے اس موذ ی وائر س کو شکست سے دوہ چار کیا۔

حکومت بلوچستان نے عالمی وباء کرونا وائرس سے پیداشدہ صورتحال کے بعد جو اقداما ت اُٹھا ئے اسے جبر کہنا نا دانی اور حقا ئق سے چشم پو شی ہے کیا عوام کو یہ قبول ہے کہ ہمار ے اردگرد لا شیں گرنا شروع ہو جائیں بھوک او ر عفریت اپنی انتہا کو پہنچے۔؟ اگر یہ ہمیں قبول نہیں تو پھر ہم سب کووزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی دانشمندانہ قیا دت کو قبول کربا پڑے گا سیا ست اور مخا لفت کے بے رحمانہ داؤ پیچ کو دوبارہ سیا سی فضا ء قائم ہونے تک موخر کرنا پڑے گا اس طرح عوام کی زند گی سے کھیلنا کسی قسم کی دانشمندی نہیں موجو دہ حکومت کر ونا سے بچاؤ کے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے بھر پور تعاون میں ہی ہم سب کی بقاء ہے۔

ہمیں بھی چین ودیگر ممالک کے تجربات سے استفا دہ کرنا چائیے۔ لاک ڈاون کے دوران شہر وں میں ناداراور غریب افراد کی مالی معاونت ہم سب کی ذمہ اری ہے اس موقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے مالی امداد اور خو راک کی ترسیل میں ہاتھ بٹھانا ہمارا اولین فرض ہے تاکہ حقدار کو ان کا حق ملنے میں آسانیاں پیدا ہوں بیمار اشخاص انتظامی طورپر قائم کر دہ آئسو لیشن وارڈ اور قر نطینہ مراکز میں داخل ہو کر اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کو تحفظ فراہم کریں اپنے ٹیسٹ کر واکر اپنی بیماری کی تسلی کریں اگر کورنا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آتے ہیں۔

تو صبر وتحمل سے اس کا مقابلہ کیا جائے تاکہ ہمیں کو صحت مند زند گی نصیب ہو ضروری نہیں ہر شخص جو اس مو قع پر بیما ر ہو وہ کر ونا وائرس کا ہی شکار ہو لیکن احتیا طی تدابیر میں کیا حرج ہے موجو دہ ہنگامی صو رتحال کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ خوف کا ما حول پیدا کیا جائے احتیا ط کو احتیا ط کے طو رپر لیا جا ئے نہ کہ سب کو خوف زدہ کیا جائے خوراک کے استعمال میں اعتدال سے کام لیا جائے گھروں میں خود کو محدودکرنے کا مقصد خو د کو نا کا رہ بنانا بھی نہیں بلکہ وقت کو تعمیر ی مصروفیا ت میں گزارنا بہتر ہے نئی نسل کو گھروں میں پڑھانے اور انکی بہترین تر بیت کا اہتما م کیاجانا ہی عقلمندی ہے۔

تاکہ اس گھمبیر صو رتحال سے نکلنے کے بعد فوری طور پر بھر پور انداز میں روز گار زند گی کا دوبارہ آغاز کیا جا سکے ماہر ین کے مطابق اس خطے میں کر وناوائر س کی شد ت میں کسی وقت بھی اضافہ ہو سکتا ہے اگر کسی بھی ملک میں بے احتیا طیوں سے کام لیا گیا تو اس کے نتائج بہت برے ہو نگے بلو چستان عوا م کو بھی دیگر صو بوں کے سا تھ ملکر صبر وتحمل سے کام لینا ہو گا صوبے میں اب جب کہ کر ونا وائرس مقامی شکل و صورت اختیا ر چکا ہے اور ایران و دیگر ممالک سے آنے والوں سے ابھی تک خطرات باقی ہیں اس وقت تک جتنے کیسز سامنے آچکے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی صورت باہر سے آنے والوں سے جڑ رہے ہیں۔

بہتر ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور باہر سے آنے والوں پر کٹری نظر رکھیں اور انہیں قائل کر یں کہ وہ اپنے ٹیسٹ کر وائیں طبی عملہ جو اس مشکل صو رتحال میں اپنے فرائض خوبی سے نبھا رہاہے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہمارا فرض ہے مخیر حضرات دل کھول کر اپنے آس پاس موجود مساکین کی مدد کریں خصوصاًان مزدور پیشہ افراد کی جو عام دنوں میں محنت مزدوری سے رزق حلال کماتے ہیں اس وقت انکی سفید پوشی کا بھرم رکھاجائے کسی ملک کے عوام ہی ان کا اصل سرمایہ ہیں عوام کی زند گیوں کو محفوظ بنانا رہنما ؤں کی ذمہ داری ہے خواہ انکا تعلق اپو زیشن جماعتوں ہی سے کیوں نہ ہو،مصیبت اور آفات کے دوران جو جما عتیں عوام کی خد مت گزاری میں پیش پیش ہو تے ہیں۔

وہی رہنما اور جما عتیں عوام کی دلوں پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں کرونا کے جبر سے نکلنے کے بعد معلوم ہو گا کہ کون لوگ تھے جو مصیبت کی گھڑی میں عوام کی دلجوئی میں مصروف تھے وہ کو ن تھے جو انسانوں کیلئے دلوں میں درد رکھتے تھے منظم قومیں ہی کرونا وائرس جیسے جبر کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔الحمد اللہ اہل بلو چستان نے اب تک بہترین تنظیم کا ری کا مظا ہرہ کیاہے کاروبا ری حضرات بھی اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں غریب عوام کیلئے دلوں میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں مد توں کمانے والے اپنے سرمایہ میں سے مصیبت کی اس گھڑی میں بے کسوں کی مدد جا ری رکھیں۔کیونکہ خیر وخیرات سے ہی بلا ئیں ٹلتیں ہیں ورنہ ظالم کر وناانسانو ں کو نگلنے۔شکا ر کرنے میں تمیز نہیں رکھتا۔