نوول کورونا وائرس(کوویڈ-19) نے عالمی وبا کی شکل اختیار کر لیا ہے جس نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تقریبا 40 دن کے قلیل مدت میں کرونا وائرس نے 202 سے زائد ممالک کو متاثر کیا ہے اور اب تک 19 لاکھ سے زائد افراد اس وبائی مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد افراد دنیا بھر سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور یہ مرض تیزی سے پھیلتا ہی جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں 6000 کے ہزار قریب افراد اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ150 قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے 1500 کے قریب صحت یاب ہوگئے ہیں۔
جبکہ بلوچستان میں صوبائی حکومت کے بروقت اقدامات سے اس مرض کا پھیلاؤ پائے جانے والے خدشات کی نسبت بہت کم رہا ہے بلوچستان میں اعداد و شمار کے مطابق تقریبا277 افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور سو سے زائد افراد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں جبکہ 128000 کے قریب ایک اس مرض سے لڑتے لڑتے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اس وباء نے متاثرہ ملکوں کی معیشتوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وائرس نے 4.1 کھرب ڈالر کی لگ بھگ نقصان عالمی معیشت کو پہنچایا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی شرح نمود گرکر آدھی رہ گئی ہے۔
بلکہ جی ڈی پی کا منفی میں جانے کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں اللہ کرے ایسا نہ ہو اور دنیا بھر میں میں اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے تقریبا گیارہ کھرب ڈالر بھی ڈوب گئے ہیں۔اس مرض کے روک تھام کے لیے تمام ممالک اپنے طور پر کوشش کررہے ہیں۔اور تاحال اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے تمام ممالک ابتدائی احتیاطی تدابیر کے طور پر سماجی دوری اختیار کرنے اور رش والی جگہوں میں جانے آنے پر فیس ماسک پہننے، ہاتھوں کو دھونے منہ اور آنکھوں کو چھونے سے گریز کرنے کی سختی سے تلقین کی جا رہی ہے۔
اور سماجی دوری کو یقینی بنانے کے لیے شہریوں کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے تمام ممالک میں لاک ڈاؤن کا عمل بھی جاری ہے دنیا بھر کی طرح لاک ڈاؤن پاکستان بھر میں بھی جاری ہے اور 15 اپریل سے لاک ڈاؤن میں کسی حد تک نرمی لائی جارہی ہے تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔جس وقت کوویڈ-19 ایران میں ظاہر ہونا شروع ہوا اس وقت بلوچستان میں نہم اور دہم کے امتحانات بھی جاری تھے احتیاطی تدابیر کے طور پر صوبائی حکومت نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے ہوئے نہم اور دہم کے امتحانات فوری طور پر منسوخ کر دیئے تھے جس کی بدولت اس وائرس کے پھیلاؤکو روکنے میں بہت حد تک مدد ملی۔
چین سے ایران وائرس منتقلی کے ساتھ ہی حکومت بلوچستان نے کورونا وائرس کی روک تھام کوممکن بنانے کے لئے اقدامات شروع کر دیے تھے صوبائی حکومت کے بہترین اور بروقت اقدامات کا وزیراعظم عمران خان نے بھی برملا اعتراف کیا ہے بلوچستان کے وسائل،مسائل کی نسبت چونکہ بہت محدود ہے جس وائرس نے ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو ہلاکر رکھ دیا وہاں اس صوبے کے وسائل اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے اس کے باوجود صوبائی حکومت نے تفتان بارڈر پر قرنطینہ سینٹربنا دیا جہاں ابتدائی طور پر دیگر صوبوں کے سینکڑوں تصدیق شدہ کورنا مریضوں اور مشتبہ مریضوں کو صرف یہاں ٹھہرایا گیا۔
بلکہ کو ہر ممکن سہولیات بھی فراہم کیے گئے اوربعد میں متعلقہ صوبوں کو ذمہ داری کے ساتھ مریضوں کو ان کے صوبوں میں قائم کرنطینہ سینٹر پہنچایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کے شیخ زائد ہسپتال اور فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں متاثرین کے لیے آئسولیشن وارڈز قائم کیے۔اس کے علاوہ صوبے بھر کے تمام ڈویڑنل اورضلعی کوارٹر اسپتالوں میں قرنطینہ سینٹر سمیت آئسولیشن وارڈز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
اس وائرس سے بہتر انداز میں صوبے بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کردیا تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو ہر صورت روکا جاسکے اس بابت وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کوئٹہ سمیت صوبے بھر کے تمام ڈویژنل و ضلعی اور تحصیل حکام کو سختی سے ہدایت کی کہ انٹر سٹی پبلک ٹرانسپورٹ اور بین اضلاع نقل و حرکت کو سختی سے روک رکھے تاکہ اس مرض کا پھیلاؤ چھوٹے شہروں اور قصبوں تک نہ پھیلیں اور ساتھ ہی میٹروپولٹن کارپوریشن اور میونسپل کمیٹیوں کو صفائی و ستھرائی ہر صورت یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
جس پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے میٹرو پو لیٹن کارپوریشن نے شہر کے تمام ضروری دفاتر اور مین شاہراہوں پر جراثیم کش اسپرے بھی کئے جبکہ شہری دفاع کی جانب سے لوگوں میں اس وائرس سے آگاہی مہم چلائی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں۔ صوبائی حکومت نے فوری طور پر اہم ضروری محکموں کو اس حوالے سے فوری طور پر کام کرنے کے احکامات صادر کیے جو انتہائی جانفشانی سے خدمات انجام دے رہے ہیں جو اس مرض کے خلاف سائیڈ لائن پر موجود ہو کر فرنٹ لائن پر خدمات انجام دینے والوں کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ذاتی طور پرفڑنٹ لائن اور سیکنڈ لائن پر کام کرنے والے محکموں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور لمحہ بہ لمحہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اقدامات اٹھانے کی ہدایت جاری کرتے ہیں اور خود مانیٹر بھی کرتے ہیں۔ان بروقت اقدامات کی وجہ سے صوبے میں اس مہلک وباء کو پھیلنے سے بڑی حد تک روک لیا گیا ہے۔اس ضمن میں وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان وفاقی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے ذاتی طور پر رابطے میں رہتے ہیں اور ان کو اس بابت وفاقی حکومت کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے اور وزیر اعظم عمران خان خود کوئٹہ تشریف لائے اور اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی۔
بی ایم سی میں قائم آئسولیشن وارڈ کا معائنہ بھی کیا اس موقع پر وزیر اعظم نے وزیراعلی بلوچستان کے اقدامات کو بروقت اور تسلی بخش قرار دیتے ہوئے انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور تعاون بھی اس حوالے سے صوبائی حکومت کو حاصل ہے۔کوویڈ-19 کے تدارک کو یقینی بنانے کیلئے پاک فوج اور ایف سی نے صوبے سے منسلک بارڈر پر قرنطینہ سینٹر بھی قائم کئے ہیں۔جہاں کورونا کے مریضوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے کچھ عناصر نے سیاسی اور گروہی فائدہ اٹھانے کے ان اقدامات کو سبوتاژ کرنے مذموم کوششیں بھی کیے جو کہ قابل مذمت فعل ہے۔جبکہ ماسک، ٹیسٹ کیٹس،اور ضروری سامان ہسپتالو ں میں موجود تھے ہاں ہوسکتا ہے کسی حد تک ان سامان کی بھی کمی ہو۔ کیونکہ متعلقہ سامان کی طلب پوری دنیا میں ہے اور انکی پیداوار بھی کم تھی وقت فوقتاً سامان صوبائی حکو مت منگواتی رہی ہے ظاہر طلب ہونے کی وجہ سامنے کے حصول میں تاخیر بھی ہوئی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صوبائی حکومت خاموش تماشائی تھی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر بیروزگارہونے والے دیہاڑی دار اور مستحق افراد کو ڈپٹی کمشنرز اور منتخب ارکان اسمبلی کے ذریعے راشن تقسیم کرنے کی ہدایت کی تاکہ غریب کو بروقت راشن مل سکے۔اس کار خیر میں غیر سرکاری تنطیمو ں کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت جام کمال خان کی قیادت میں شروع دن سے ہی کرونا وائرس کے سد باب کے یے سنجیدہ اور موثر اقدامات اٹھانے زائرین کو سہولتوں کی فراہمی قرنطینہ کرنے اور دیگر صوبوں کے اسکینگ شدہ زائرین کیساتھ تعاون کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اب معاشرے کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حکومتی اقدامات اور احکامات کی پاسداری کیلئے تاریخی کردار ادا کریں۔