|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2020

نصیرآباد بلوچستان کاواحد ڈویڑن ہے جہاں دریائی پانی سے زمینوں کوسیراب کیا جاتا ہے اور ان علاقوں کی زرعی بہتری میں صوبے کے دو اکلوتے کینال پٹ فیڈر کینال اور کھیر تھر کینال ہیں پٹ فیڈر کینال دریائے سندھ سے گڈوبیراج کے مقام سے جبکہ کھیر تھر سکھر بیراج سے نکلتا ہے اور کافی فاصلہ طے کرکے نصیرآباد جعفر آباد جھل مگسی کے علاقوں کو آباد کرتے ہیں ان ہی دو کینالوں کی وجہ سے نصیرآباد سمیت دیگر دو اضلاع جعفرآباد اور جھل مگسی میں بھی لاکھوں ایکٹر آباد ہوتے ہیں بلوچستان میں دیگر علاقے ٹیوب ویل یابرساتی پانی پر آباد ہوتے ہیں نصیرآباد صوبے کاگرین بیلٹ ہے۔

جہاں لاکھوں میٹرک ٹن گندم چنا جوار چاول دالیں و دیگر فصلات وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں اور بلاشبہ وہ صوبے کے عوام کیضروریات سے بھی زیادہ ہوتی ہیں بلوچستان ملک سمیت افغانستان کیلئے بھی گندم کی خریداری یہاں سے کی جاتی ہے محکمہ فوڈاور پاسکو سالانہ یہاں سے بھی لاکھوں ٹن گندم خریدتاہے اورپاسکویہی گندم دیگرصوبوں کو بعد میں سپلائی کرتا ہے۔

1995 میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ چینی انجینئرز کی نگرانی میں شروع ہوئی اس سے قبل پٹ فیڈر کینال 6700 کیوسک کے بجائے اس میں 25سو کیوسک پانی کی کیپسٹی/صلاحیت تھی چینی انجینئرز کی قیادت میں پٹ فیڈر پراجیکٹ پر کام شروع ہوااور کینال کی بہتری کے ساتھ ساتھ لنک کینال اور واٹر کورسسز کو بھی بنایا گیا اور ساتھ ہی سیم نالے بھی بنائے گئے تاکہ زراعت سے اضافی پانی ان نالوں میں چھوڑ دیا جائے اور فصلات کو نقصان نہ ہو۔ پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کے باعث کینال میں پانی کے لیول اور صلاحیت میں بہت بہتری ہوئی اور 67سو کیوسک تک پانی کا بہاؤ بڑھ گیا۔

اور زیادہ پانی کے باعث نصیرآباد میں زرعی انقلاب برپا ہوا اور ایک فصل کے بجائیاب وافر پانی کے باعث دو فصل کی کاشت شروع ہوئی پہلے گندم کپاس جوار اور چنے کی فصل کاشت ہوتی تھی بعد ازاں پانی زیادہ ہونے کے باعث پٹ فیڈر کے کمانڈ ایریا میں چاول کی بمپر فصل کی کاشت شروع ہوئی جس کے باعث نصیرآباد میں معاشی اور زرعی ترقی کاایک نیا دور شروع ہوتا گیا زمیندار اور کسانوں کی خوشحال زندگی شروع ہوئی 2010 اور 2012 کے تباہ کن سیلاب نے بھی پٹ فیڈر کینال کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ منہدم کر دیا جس سے کینال کے کنارے مکمل طور پر منہدم ہو چکے تھے۔

جگہ جگہ شگاف پڑنے کے باعث پٹ فیڈر کینال بہاو اور روانی کے قابل بھی نہیں رہا اس وقت اس کی بحالی کیلئے وفاق نے دو ارب اور صوبے نے بھی خطیر بجٹ کا اعلان کیا لیکن اس سے بھی پٹ فیڈر کینال کی بحالی مکمل طور پر نہ ہو سکی اور اس وقت حکومت اور سیاسی قیادت کی کوششوں سے پٹ فیڈر کی بحالی کیلئے این ایل سی (نیشنل لاجسٹک سیل) جیسی نیک نام اور معروف فرم کی خدمات حاصل کی گئیں مشہور و معروف فرم سے زمینداروں اور کسانوں کو بہت ہی حوصلہ ملا کہ اب پٹ فیڈر کی بہتر انداز میں ڈی سلٹنگ اور ری ماڈلنگ کرنے سے کینال کواس کیحصے کا پورا پانی ملے گا اور اس سے نصیرآباد میں مزید لاکھوں ایکٹر سیراب ہو کر صوبے اور ملکی معیشیت کو مزید پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔

لیکن این ایل سی کے کام اور معیار سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے اور میر حسن سے آگے کام برائے نام ہو کر رہ گیا اور اس کام کے دوران اس وقت صوبے میں حالات بھی خراب تھے امن وامان کا بھی مسئلہ تھا شاید اسی وجہ سے کینال کا معیاری کام نہ ہوسکا تاہم اسی کینال میں مبینہ کرپشن کے مشہور اسکینڈل بھی ہوئے اور اریگیشن کے متعلقہ افیسران نے جیل کی یاترا بھی کی اور میری اطلاعات کے مطابق تاحال نیب میں کیس بھی چل رہا ہے اور اس پر صوبائی حکومت نے بھی متعدد تحقیقاتی کمیٹیز بھی بنائی لیکن شایدطاقتور آفیسران اور مافیاز کی وجہ سے کسی کو تاحال کچھ نہیں ہوسکا ہے۔

متعدد ٹھیکداروں نے بھی اپنی بقایاجات کیلئے کیس کیئے ہوئے ہیں تاہم اب تک انہیں واجبات شاید نہیں ملے ہیں پٹ فیڈر کینال کواگر بلوچستان کاسفید ہاتھی اور پاکستان کا اسٹیل مل کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اربوں روپے خرچ ہونے کیباوجود پٹ فیڈر کینال نہ تو مکمل بحال ہو سکا ہیاور نہ ہی اس سے اس کے پانی کاشیئر مکمل مل رہا ہے منہدم ہونے کے باعث پانی کی روانی متاثر ہورہی ہے اور کینال کو اسی وجہ سے کم حصہ پانی ملتا ہے چند سال قبل یہ خوشخبری سنائی گئی کہ پٹ فیڈر کینال کا 30 کلومیٹر حصہ پہلے فیز میں پختہ کیا جائے گا لیکن یہ پختہ کرنے والا منصوبہ خواب و خیال ثابت ہوا اوریہ خواب تاحال تشنہ تعبیر ہے۔

پٹ فیڈر کینال بار بار منہدم ہونے کی وجہ سالانہ لاکھوں کیوسک پانی کیضائع ہونے کے ساتھ ساتھ اور اربوں روپے بار بار اخراجات کی مد میں سے ڈکارلیتا ہے کینال کی پختہ کرنے سے اس نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کا عمل بھی شاید خواب ہی ثابت ہو نصیرآباد کی خوش قسمتی کہیں یا پھر بدقسمتی سے پورے ضلع کے سیاسی لیڈران حزب اقتدار اور حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی قیادت ضلع کے بڑے نامی گرامی زمیندار ہیں اور اس وقت بھی صوبائی کابینہ میں وزارت کے منصب پر فائز ہیں۔

اس میں قابل قدر نام نوابزادہ طارق مگسی,سردار یار محمدرند,حاجی محمد خان لہڑی,میر سلیم خان کھوسو, میر سکندر خان عمرانی میر عمر خان جمالی مختلف وزارتوں پر براجمان ہیں جبکہ جان محمد خان جمالی اور ربابہ بلیدی بھی ایم پی اے کے ساتھ ساتھ ضلع کے نامی گرامی زمیندار بھی ہیں اگر یہ تمام زمیندار اوروزرا سمیت اپوزیشن متحد ہوں اور تمام ایم پی ایز اپنی سالانہ ترقیاتی فنڈز سے دس دس کروڑ روپے دیں کچھ وزیراعلی سیاور کچھ مرکز سے فنڈز حاصل کیئے جائیں تو پٹ فیڈر کینال مکمل طور پر پختہ ہوسکتا ہیاور اس سے مزید لاکھوں ایکڑ سیراب ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی گرین بیلٹ کاحسن بھی دوبالا ہو سکتا ہے تاہم اگر یہ کینال پختہ ہوا تو متعلقہ محکمہ کے آفیسران کی شاید وہ عیاشی ختم ہوجو اسی وجہ سے ہو رہی ہے آفیسران پٹ فیڈر کینال کی پختہ کرنے میں دلچسپی کا عملی مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔

نصیرآباد کی خوش قسمتی ہے کہ ستر سالوں میں پہلی مرتبہ اریگیشن کی وزارت بھی نصیرآباد کو ملی ہے اور وزیر موصوف کی زرعی زمینیں بھی پٹ فیڈر کینال سے سیراب ہوتی ہیں جھل مگسی کے متعدد علاقیپٹ فیڈر کینال کے پانی سے سیراب ہورہے ہیں تاہم اپویشن رہنما سابق صوبائی وزیر بابو محمد امین عمرانی نے الزام لگایا ہے کہ پٹ فیڈر کینال کی تباہی ایک سوچی سمجھی منصوبہ ہے تاکہ علاقہ غیر آباد ہو اور بعد ازاں وہ مجبور ہو کرآپنی زمینیں اونے پونے داموں فروخت کریں اور پھر ان زمینوں کو بڑے زمیندار خرید کر پورے علاقے کو اپنی جاگیربنائیں لیکن یہ بھی اس مسئلے کاحل نہیں پٹ فیڈر کی موجودہ حالت برقرار رہی تو پوراعلاقہ صحرائے تھر بن جائے گا زمیندار اور کسان بدحال ہوجائیں گے علاقے کی زرخیزی بھی تباہ ہوجائے گی۔

نصیرآباد میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ اور پانی کیاضافہ کے باعث ربیع کیلئے مزید تین چھوٹے کینال ریبع1 ربیع2 اور ربیع 3بھی بنایا گیا جس سے زراعت میں مزید انقلاب برپا ہوا اور ربیع کی وجہ پورے ملک میں نصیرآباد کی پہچان ہوا اور سردیوں میں پورے ملک سیخریداری ٹماٹر خریدنیاور کاروبار کرنے کیلئے نصیرآباد کا رخ کرتے ہیں اور اسی وجہ نصیرآباد صوبے کا معاشی حب بنتا جا رہا ہے نصیرآباد کی زرعی ترقی میں محکمہ اریگیشن اور محکمہ زراعت کاکردار نہ ہونے کے برابر ہیاریگیشن کی وجہ سے پانی کا بحران روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے اس کی معقول وجہ اریگیشن حکام ہی بتا سکتے ہیں۔

تاہم انجمن کاشتکاران کے سیکرٹری جنرل حیدر بلوچ کا کہناہے کہ اریگیشن کی غفلت اور نااہلی کے باعث پانی کابحران روز بروز خراب اور ابتر ہوتا جا رہا ہے اور ٹیل کے زمینداروں کو پینے کیلئے بھی پانی فراہم نہیں کیا جاتا ہے اسی وجہ سے زمیندار اور کاشتکار خریف کے موسم میں متعدد مرتبہ قرآن پاک اٹھا کر احتجاج کرنے پر بھی مجبور ہو چکے ہیں جبکہ محکمہ زراعت سب ٹھیک کاراگ الاپ رہے ہیں نصیرآباد میں فی ایکٹر آبادی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔

فصلات پر مختلف بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں ان پر ان کے مفیدمشورے تک زمینداروں کودستیاب نہیں زمینداروں کوزراعت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ سہولیات تک میسر نہیں جبکہ الٹا غیر معیاری اور ناقص پیسٹی سائیڈز کمپنیوں کو این او سی دیکر اپنے ذاتی مفاد کیلئے زمینداروں کالاکھوں روپے کانقصان کراتے ہیں اس سلسلے میں ایک زمیندار نے بتایا کہ ادوایات ناقص اور غیر معیاری ہونے کے باعث فصلوں پر اثر نہیں کرتے ہیں فی ایکڑ پیدوار بڑھانے کے بجائے فی ایکڑ پیدوار کو مزید کم کردیتے ہیں اور ان ہی ادویات کے باعث روز بروز زرعی پیدوار میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔

اب وقت آگیا کہ زراعت کی بہتری کیلئے کوالٹی اور معیار کو میرٹ پر برقرار رکھا جائے غیر معیاری ادوایات فروخت کرنیوالوں کیخلاف ایکشن لیا جائے اور کسی بھی غیرمعیاری ادوایات سے متاثر ہونے والی فصلوں کے نقصان پر کاروائی کی جائے متعلقہ پیسٹیسائیڈ ڈیلر سمیت متعلقہ زرعی آفیسر کے خلاف بھی محکمانہ کاروائی عمل میں لایا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کیاقدامات سے زرعی انقلاب متاثر نہ ہواور صوبے کے کسانوں اور زمینداروں کا نقصان بھی نہ ہو.