|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2020

اوچ پاور پراجیکٹ ڈیرہ مراد جمالی 1996 میں ملک میں بجلی کی کمی اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے ہی اس کا اپنے ہاتھوں سے سنگ بنیاد رکھااور اپنے خطاب میں اسے ملک اور صوبے بلخصوص نصیرآباد کیلئے ایک انقلابی منصوبہ قرار دیا تھا اور حقیقت میں اوچ پاور پراجیکٹ کا یہ عظیم منصوبہ بھی کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم بینظیر بھٹو صاحبہ نے اعلان کیا تھا کہ یہ اوچ کمپنی علاقے کو مفت یا ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی۔

تعمیر و ترقی میں لوکل اور مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرے گا اور علاقے کی ترقی کیلئے بھی خصوصی طور پر متحرک کردار ادا کرے گی اور ساتھ ہی بیروزگاری کے خاتمے، صوبے میں بجلی کی کمی پر بھی قابو پایا جائے گا۔ اوچ پاور پراجیکٹ صوبے کاواحد پاور پلانٹ ہے جسے اوچ گیس فیلڈ سے گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کرکے بجلی بنائی جا رہی ہے۔

2000 میں اوچ پاور پراجیکٹ کا پہلا فیز جو 586 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ مکمل ہوا جس سے بجلی کی باقاعدہ پیداوار شروع ہو گئی جبکہ اوچ پاور پراجیکٹ کا فیز 2 کا بھی پلانٹ لگایا گیا جوکہ 406 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہا ہے اور پلانٹ ٹو سے بھی بجلی کی فراہمی کا باقاعدہ آغاز ہو چکاہے۔ اوچ پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کے وقت ڈیرہ مراد جمالی میں ایک ووکیشنل سینٹر کے قیام کی بھی منظوری دی گئی تھی جس کا مقصد علاقے کے پڑھے لکھے افراد کو ٹرینڈ کرکے اس قابل بنانا تھاکہ وہ اوچ پاور پراجیکٹ میں ہیومن ریسورسز یعنی بطور ٹیکنیشن اور ماہر بن کر پاور کمپنی کے تمام شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنی خدمات ادا کر سکیں لیکن یہ خواب ہنوزدلی دور است کے مصداق تاحال تشنہ تکمیل ہے۔

صوبے میں بیروزگاری انتہاء کو چھو رہی ہے اوچ پاور پراجیکٹ میں جب کام شروع ہوا تو تعمیراتی کمپنیاں تمام تر پنجاب سے آئی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی پورا لیبر بھی پنجاب سے لایا گیا تھا تاہم پانچ فیصد کے قریب چوکیدار، فورمین وغیرہ کچھ لوکل بھی لیئے گئے۔

اوچ پاور پراجیکٹ کے قیام اور تکمیل سے نصیرآباد کے عوام کو بجلی کی بلا تعطل فراہمی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی قوی امید تھی لیکن جب اوچ پاور پراجیکٹ کی تکمیل ہوئی تو بجائے ڈیرہ مراد جمالی کو بجلی فراہم کی جاتی، اسے نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا گیا جوکہ علاقے کیلئے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ اس سلسلے میں شروع میں کچھ سیاسی مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں نے بجلی فراہمی کی تحریک شروع کی اس وقت کچھ قوم پرست رہنماؤں نے جیل کی یاترا بھی کی بعد ازاں وہ بھی خاموش ہو گئے۔جبکہ نصیرآباد کے لئے اوچ پاور پراجیکٹ نے معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کا فیصلہ کیا انتظامیہ نے کروڑوں روپے کی سرکاری زمینیں اوچ انتظامیہ کو مفت فراہم کیں۔

اوچ کمپنی نے لوکل تعلیمی اداروں کے بجائے سٹیزن اسکولز فاؤنڈیشن کو سکول بلڈنگ بنا کر دیئے. کیا نصیرآباد یا بلوچستان کے مقامی این جی او نہیں تھیں کیا نصیرآباد میں پرائیویٹ سکول چلانے والے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل نہیں کی جا سکتی تھیں؟تاہم پھر بھی تعلیمی اداروں کے قیام سے عوام اور کچھ تعلیم دوست افراد کو یقین ہوا کہ ان تعلیمی اداروں کے قیام سے نصیرآباد میں انقلاب برپا ہوگا لیکن وہ بھی علاقے میں تعلیمی میدان میں خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے۔

پی پی پی رہنما ء و سابق ایم پی اے میر صادق عمرانی اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ اوچ نے معاہدہ کیا ہے کہ تمام مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کریگا علاقے کی ترقی اور بہتری کیلئے اپنے منافع سے سالانہ خطیر رقم بھی خرچ کریگا،تعلیم صحت سمیت بنیادی ترقی میں بھی فعال کردار ادا کریگا لیکن اوچ پاور پراجیکٹ نے ڈیرہ مراد جمالی میں ایک ٹراما سینٹر، بوائز اور گرلز کالج کیلئے دو عدد کوسٹرز اور سالانہ اسپورٹس ٹورنامنٹ کیلئے چند لاکھ روپے،کچھ فلٹر پلانٹ لگا کر عوام کوسہانا خواب دکھایا لیکن کروڑوں روپے منافع کمانے والی اوچ پاور پراجیکٹس نے نہ تو بنیادی ترقی روڈ انفراسٹرکچر، بڑے اور بہترین ہسپتال سمیت کوئی انقلابی کام تاحال نہیں کیا ہے۔

ملازمت میں ایک اہم عہدہ پی آر او جعفرآباد اور چند دیگر لیبر اور فورمین مزدوروں کے علاوہ تمام تر پنجاب اور سندھ سے بھرتی کئے گئے اور تو اور اوچ پاور پراجیکٹ کیلئے مولوی صاحب کے تقرر کاقرعہ فال بھی سندھ ہی سے نکلا۔تاہم علاقے کو نظر انداز کرنے میں جہاں کمپنی کا رول ہے وہاں پی آر او طارق جمالی کا بھی اہم کردار ہے۔ نصیرآباد کے سیاسی و سماجی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ علاقے کی تعمیر و ترقی میں اوچ پاور پراجیکٹ کے پی آر او ہی رکاوٹ ہیں تاہم یہ قرین قیاس بھی ہو سکتا ہے۔

اوچ ٹو کے افتتاح پر جب نواز شریف کو بتایا گیا کہ تاحال نصیرآباد کو اوچ سے بجلی نہیں مل رہی ہے جس پر اس نے 220 کے وی گرڈ اسٹیشن کی ڈیرہ مراد جمالی قائم کرنے کی منظوری اور علاقے کو بجلی کی فراہمی کا اعلان کیا اور اب سبی سمیت نصیرآباد،روجھان جمالی، اوستہ محمد، صحبت پور اور جھل مگسی کے علاقوں کو بجلی کی فراہمی غالباً 2018 کے آخر میں شروع ہوئی لیکن بجلی کی مفت فراہمی نہ ہو سکی، تاہم عوام نے شکرانہ کے نوافل ادا کیئے کہ اب لوڈشیڈنگ سے جان چھوٹے گی لیکن لوڈشیڈنگ ہنوز جاری ہے۔

چند ماہ قبل حلقہ پی بی 11کے ایم پی اے میر سکندر خان عمرانی نے مجھ سمیت میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اوچ پاور پراجیکٹ علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کر رہی ہے علاقے اور عوام کوفائدہ نہیں مل رہا ہے اس سلسلے میں اپنے وکلاء سے مشاورت کرکے سپریم کورٹ میں کیس کیا جائے گا لیکن وہ کیس بھی تاحال دائرنہیں ہو سکا ہے کیس کے حوالے سے کوئی قانونی رکاوٹیں ہیں یا اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔

اس بارے میں میر سکندر خان عمرانی صاحب ہی بہتر بتا سکیں گے اور ہاں اوچ پاور پراجیکٹ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ دریا کنارے پیاسا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اوچ پارو پراجیکٹس روزگار سوشل ترقی و دیگر شعبوں میں تاحال کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھاسکا ہے، سوائے سالانہ چند لاکھ دیکر اسپورٹس ٹورنامنٹس کرانے کے۔تاہم اب شنید میں آیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں ریکارڈ بے ضابطگیوں اور اربوں روپے معاہدے سے زائد وصول کرنے کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیاپر اطلاعات ہیں،ان آئی پی پیز میں اوچ پاور بھی شامل ہے کیا۔

اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان، ایم این اے نوابزادہ خالد خان مگسی،منتخب نمائندے اوچ پاور کے متعلق کبھی لب کشائی کریں گے؟ کیا اب تک ہمارے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اس پر کوئی تحریک یاقرارداد پیش کی ہے؟ کیا دیگر صوبوں کوروزگار دینے کے حوالے سے کمپنی سے جواب طلب کر سکیں گے؟ کیا صوبے کے وسائل سے اربوں روپے کمانے والی کمپنی سے صرف دس فیصد وسائل علاقے کی ترقی پر خرچ کرنے کے حوالے سے ارباب اختیار ٹھوس اقدامات اٹھا سکیں گے؟ کیااوچ پاور پراجیکٹس کواس امر کا پابند کیا جا سکے گا کہ وہ ڈیرہ مراد جمالی ٹاؤن کو مفت یاارزاں نرخوں پر بجلی فراہمی کا پابند کرا سکیں گے؟

کیا نصیرآباد کی سیاسی جماعتیں علاقے کو نظر انداز کرنے پر اوچ پاور پراجیکٹس کے خلاف آواز بلند کر سکیں گے؟ ان تمام سوالات کے جوابات کا انحصار سیاسی قیادت،سیاسی جماعتیں،میڈیا اور سماجی تنظیموں کی قیادت پر منحصر ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیااقدامات کر سکتے ہیں اور اکابرین کا علاقائی ترقی میں کیاکردار ہو سکتا ہے۔