اس وقت دنیا تاریخی لاک ڈاؤن سے گزر رہی ہے صرف اور صرف کرونا وائرس کی وجہ سے۔ اور اس لاک ڈاؤن کا اثر صرف صوبہ بلوچستان کے غریب عوام پر نہیں بلکہ پورے پاکستان کے غریب عوام پر پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت 7 ارب ڈالر پاکستان کے غریب عوام پر تقسیم کئے جو کہ میرے خیال میں بہت اچھا حکومتی اقدام تھا۔ اگست2018ء سے پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالی۔ وزیراعظم عمران خان انتخابی جلسوں میں قوم سے کہتے رہے تھے کہ وہ برسر اقتدار آکر قرضے نہیں لیں گے لیکن جب وہ حکومتی ایوانوں میں پہنچے تو انہیں اس تلخ سچائی کا علم ہوا کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرض لئے بغیر کاروبار مملکت چل ہی نہیں سکتی۔ سرکاری آمدن تھوڑی تھی لہٰذا اخراجات پورے کرنے کے واسطے مزیدقرض لینا ناگزیر تھا۔
اس لئے پی ٹی آئی حکومت بھی عالمی و مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگی۔ سرکاری خزانہ بالکل خالی تھا۔ یہ خطرہ جنم لے چکا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے دوست مملکتوں کے پے در پے دورے کئے تاکہ قرض لے کر اپنے وطن کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکیں۔ ان کی کوششیں کامیاب تو ثابت ہوئیں اور پاکستانی حکومت کو اربوں ڈالر مل بھی گئے مگر سکے کا منفی رخ یہ ہے کہ پاکستان پر مزید قرضہ چڑھ گیا گویا پی ٹی آئی حکومت کے سولہ ماہی دور میں وطن پر چڑھے مجموعی قرضوں کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد بڑھ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرضوں کے رقم ہی سے اپنے اخراجات پورے کررہی ہے۔
یقینا یہ پسندیدہ روش نہیں کیونکہ قرضوں کا بوجھ کسی بھی ملک کو سیاسی و معاشی طور پر قرضے دینے والے کا غلام بنا سکتا ہے۔ قرضے دینے والے ملک و ادارے پھر حکمران طبقے سے من چاہی شرائط منوا سکتے ہیں مثال کے طور پر پچھلے سے پچھلے سال پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینا پڑا۔ تب اس عالمی مالیاتی ادارے کی خواہش پر ہی پاکستانی روپے کی قدر گھٹائی گئی۔ نیز ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف کے شرائط کے مطابق ہی بجلی،تیل اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھائی گئیں۔ اس سارے عمل نے پاکستان میں مہنگائی بڑھا دی جس سے نچلے و متوسط طبقے کے لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ ان کی آمدن تو منجمد رہی جبکہ اخراجات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے اس تبدیلی نے کروڑوں پاکستانیوں کو پریشان کر ڈالا۔ قرضوں کے بوجھ کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ حکومت کو جس مد میں بھی آمدن ہو اس کا بڑا حصہ قرضوں اور ان کا سود اتارنے پر خرچ ہوجاتا ہے۔
چنانچہ عوام کی ترقی اور فلاح کے منصوبے شروع کرنے کے لئے رقم ہی نہیں بچتی۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی وزارت خزانہ نے پچھلے مالی سال کے پہلے تین ماہ جولائی تا ستمبر کی آمدن و خرچ پر مبنی رپورٹ جاری کی جو چشم کشا حقائق وا کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت کو تین ماہ کے دوران ایک ہزار چار سو اناسی ارب روپے کی آمدن ہوئی۔ اس میں سے ایک ہزار ایک سو بیاسی ارب روپے ٹیکسوں کے ذریعے اور تین سو چھیالیس ارب روپے غیر ٹیکس ذرائع سے حاصل ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کا خرچ ایک ہزار سات سو پچھتر ارب روپے رہا۔ گویا حکومت کا بجٹ دو سو چھیاسی ارب روپے خسارے میں رہا۔
یہ خسارہ بیرونی اور مقامی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر ہی پورا کیا گیا۔ اس رپورٹ کی نمایاں ترین بات یہ ہے کہ حکومتی آمدن کا سب سے بڑا حصہ یعنی پانچ سو اکتہر ارب اڑسٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئے ان تین ماہ میں ترقیاتی منصوبوں پر صرف ایک سو سینتالیس ارب روپے خرچ ہوئے۔ اس رقم کا بھی بیشتر حصہ منصوبوں سے منسلک ملازمین اور مشیروں کی بھاری تنخواہیں دینے پر اٹھ جاتا ہے۔
چنانچہ ترقیاتی منصوبوں پر حقیقی رقم بہت کم خرچ ہوتی ہے جو کہ پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ میرے خیال میں جب تک وفاقی حکومت اخراجات کم کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کرتی تب تک پورا وطن اسی طرح قرضوں میں ڈوبا رہے گا۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سب سے پہلے حکومتی اخراجات کم کرے جو مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک طرف آمدن کم ہے تو دوسری طرف حکومت نے درمیانے اور چھوٹے معاشی شعبوں کی ترقی کے لئے انہیں ٹیکسوں سے چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ شعبے یقینا قومی معیشت کو ترقی دیتے اور مستحکم کرتے ہیں مگر حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے کس کو فائدہ ہورہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سارے مالی فوائد مٹھی بھر مالکان سمیٹ رہے ہوں جبکہ کارکنوں تک اس سرکاری مدد کے ثمرات نہیں پہنچ پارہے۔