جی ہاں یہ داستان ہے یوتھ پارلیمنٹ عرف یرغمال پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کی ایک آن لائن لنک کے ذریعے بلوچستان ے مختلف اضلاع سے جوانوں نے اس میں غالباََ جولائی 2019 میں فارم جمع کئیے، بہت سی فی میلز بھی شامل تھیں یہ تمام بلوچستان کے پسے ہوئے لوگ یوتھ پارلیمنٹ میں کچھ سیکھنے کو گئے تھے،اسکا انٹرویو سرینا ہوٹل کوئٹہ میں منعقد ہوا انٹرویو لینے کے لئے معروف اینکر پرسن جوکہ یوتھ پارلیمنٹ کے مرکزی چیئرمین ہیں اور اسکے علاوہ بلوچستان سے منتخب صدر شبیر بلوچ و دیگر موجود تھے۔ ایک سال ممبر شپ کی فیس500 اور مختلف ٹائم پیریڈ کی مختلف تھی۔
انٹرویو ہونے کے بعد چند ہی عرصہ گزرا اور تمام انٹرویو دینے والوں کو ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ کیا گیا جسکا نام یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر تھا اور یہ خوش خبری سنائی گئی کہ جو بھی اس گروپ میں ایڈ ہیں وہ یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں،اور سب کے لئیے یہ خوشی کی بات ہوگئی کہ اب ہم اس ادارے کا حصہ ہیں اور بہت کو کچھ سیکھنے کوملے گا یہاں کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس ادارے میں نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو سامنے لایا جائے گااور مزید کچھ یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر سے سیکھنے کو ملے گا۔لیکن ایسا بالکل بھی نہ ہوا ایک سال گزر جانے کے بعد بھی یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر میں تمام ممبرز اور عہدیداران اسکے آئین سے محروم رہے۔
انہیں یہ تک پتا نہ تھا کہ ایک ممبر اور عہدیدار کی ذمہ داری کیا ہے۔ اسی دوران کسی بھی ممبر یا عہدیدار نے آئین کے حوالے سے ہمارے یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کے واٹس ایپ گروپ میں میسج کئیے اور آئین مانگتے رہے کہ اتنا بڑا ادارہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں آپ کا آئین کہاں ہے۔ تو ممبرز کو موجودہ صدر شبیر بلوچ کی جانب سے ممبر شپ ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں یا تو ہر اْس سوال کرنے والے ممبر کو گروپ سے نکالا جاتا رہا یہ آمرانہ رویہ اور مرکز کی طرف سے بھی مسلسل نظر انداز کرنا جاری رہا۔ تو مجھ سمیت دیگر عہدیداروں و ممبروں نے یہ طے کیا کہ آئین کے حوصول کے لئیے مرکزی آفس اور مرکزی چئیرمین سے رابطہ کیا جائے اور آئین کے حوالے سے انہیں کہا جائے لیکن وہاں سے بھی مسلسل دلاسے ملتے رہے اور تا حال آئین کا اتا پتہ ہی نہ تھا۔
یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر نے شروع کے دنوں میں نوجوانوں کو بڑے بڑے خواب دکھائے کہ یہ واحد پلیٹ فارم ہے پورے پاکستان میں جو یوتھ کو آگے لانے میں سود مند ثابت ہوتا آرہا ہے اور بلوچستان والے بھی اس سے جْڑ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔لیکن وہی پْرانی روایت بلوچستان والوں کے ساتھ دہرائی گئی انہوں نے یا تو بلوچستان کے جوانوں کو بے وقوف یا تو انہیں لکیر کا فقیر سمجھا اور اس لئیے ایک سال گزرنے کے باوجود بھی انہیں نہ آئین فراہم کیا گیااور نہ ہی یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر میں کوئی کار آمد ایکٹوٹی کی گئی جس سے نوجوانوں کو کچھ سیکھنے کو ملے، یوتھ پارلیمنٹ کے ذمہ داران محض فوٹوسیشن اور ڈرامہ بازی تک محدود تھے۔
اس سے منسلک نوجوانوں کا مسلسل وقت ضائع ہوتا رہا اور یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کے صدر صاحب سے جب بھی کوئی سوال پوچھا گیا تو موصوف کی طرف سے آمرانہ رویہ اختیار کیا گیا۔اس طرح مسلسل وقت کا ضائع ہونا اور موجودہ صدر اور مرکز کی طرف سے ممبران و عہدیداران کی باتوں کو توجہ نہ دینے اور کسی قسم کی کارآمد ایکٹویٹی نہ ہونے پر 21 اپریل 2020 کو مْجھ سمیت وائس پریذیڈنٹ، جنرل سیکرٹری، و دیگر سیکریٹریز عہدیداران و ممبر ان نے یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر سے احتجاجاً استفیٰ دے دیااور یہ موقف واضح رکھ دیا کہ مسلسل موجودہ صدر شبیر بلوچ اور مرکز کی طرف سے کسی قسم کی بھی کوئی خاص توجہ نہ دینے پر ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے اور اسکے بعد چئیرمین رضوان جعفر کا تمام مستعفی ہونے والے ممبران و عہدیداران سے رابطہ ہوا اور یقین دہانی کرائی گئی کہ آپ کے تمام تحفظات جائز ہیں۔
اور ان کو حل کیا جائے گالیکن ہونا وہی تھا رضوان جعفر کی طرف سے بھی کوئی خاص توجہ نہ ملی کیونکہ ہم آئین مانگ رہے تھے اور کارکردگی کے حوالے سے سوال کر رہے تھے اور موجودہ صدر کے آمرانہ رویہ پر اسے ہٹانے کا مطالبہ تھا لیکن چئیرمین صاحب کے پاس کسی سوال کا جواب نہ تھا اور اْسے سوال کرنے والے نہیں لکیر کے فقیر لوگ چائیے تھے جو ہم میں سے کوئی نہ تھا،اور دوسرے ہی دن انکے ہی کہنے پر نئے عہدیداروں کا انتخاب ہونا شروع ہوگیا جوکہ انکی بوکھلاہٹ کی نشانی تھی،اسی طرح تمام استعفیٰ دینے والے ممبران نے یہ عہد کیا کہ جس طرح انہیں دلاسے دیکر ان کا وقت ضائع کیا گیا ہم مزید بلوچستان کے جوانوں کا وقت ضائع ہونے نہیں دینگے اور ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرینگے جو محض اپنے مفادات کے لئیے جوانوں کو استعمال کرتے ہیں، ہم اپنے قلم کے ذریعے انہیں مزید بلوچستان کے جوانوں کا وقت ضائع کرنے نہیں دینگے،انکے کرتوت سب کے سامنے لائینگے او یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کا مزید بلوچستان میں لوگوں کو بے وقف بنانا بند ہوگا۔
پھر چاہے ہمیں پرنٹ میڈیا کا سہارا، لینا پڑے یا سوشل میڈیا و دیگر چیزوں کا ہم ان کو بے نقاب کرتے رہینگے۔یہ مختصرسی کہانی تھی یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کی اور اسکے صدر اور مرکزی چیئرمین رضوان جعفر کے آمرانہ رویے کی۔ بلوچستان میں مسلسل نوجوانوں کو اسی طرح بے وقوف بنایا جاتا ہے لیکن مزید ایسا نہیں ہونے دینگے ہر ذی شعور کا فرض ہے کہ اس طرح کے نا اہلوں کو بے نقاب کریں۔