دنیا میں تیل کی قیمت کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ تمام دوسری اشیا کی قیمتوں کا انحصار تیل کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس وقت تیل کی قیمتوں سے ہمیں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ عالمی معیشت شدید مندی کا شکار ہے۔ گزشتہ ہفتے تیل کی قیمتیں منفی 40 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئیں۔ یہ قیمت پوری دنیا کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی۔ اس تمام تر صورتحال کی وجہ روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل پر کشیدگی ہے جسے تیل کی جنگ کا نام دیا گیا۔
کچھ عرصہ پہلے تیل کے معاملے پر امریکہ کے خود کفیل ہونے کے بعد سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کا تنازعہ شروع ہوا۔ سعودی عرب نے قیمتوں میں اضافے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں کمی کی تھی۔ سعودی عرب اس کے ذریعے کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی مندی کو کم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسی دوران روس نے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا۔ روس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ تعاون بند کر دیا۔ روس ایشیائی مارکیٹ میں تیل کی برآمد میں سعودی عرب کی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ روس کی جوابی کاروائی کے پیشِ نظر سعودی عرب نے فیصلہ کیا تھاکہ وہ تیل کی فروخت 25امریکی ڈالر تک کرے گا۔
اسی وجہ سے اس وقت تیل کی قیمتیں 2008ء کی معاشی مندی کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئیں۔ کرونا کی وجہ سے اُس وقت خا م تیل کی طلب اور رسد کے مابین کوئی توازن نہ رہا۔ رواں ماہ روس اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے پایا جسے اوپیک پلس معاہدے کا نام دیاگیا۔ اس معاہدے کے مطابق روس اور سعودی عرب نے آئندہ دو برس تک تیل کی پیداوار میں کمی پر اتفاق کیا۔ تیل کی عالمی تجارت میں آنے والی اس تاریخی اورغیر معمولی تکنیکی بے قاعدگی کے پیچھے اصل مسئلہ بڑا حقیقی ہے۔ تمام تجارتی اشیا ء کی قیمت اُس کی رسد اور طلب کی بنیاد پر ہی طے ہوتی ہے۔
تیل کی طلب عالمی معاشی سرگرمی کا ایک اہم حصہ ہے اور اِس وقت بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں کرونا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن نے طلب کا توازن بالکل تباہ کر دیا ہے۔ جہاز ہوں یا گاڑیاں، شہر ہو ں یا فیکٹریاں، سب اپنی جگہ بند پڑے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی طر ف سے تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلا ن بھی کیا گیا لیکن طلب میں کمی اس قدر شدید تھی کہ وہ اپنی پیداوار میں اِ س تیزی سے کمی نہیں کر سکے جس کی وجہ سے برینٹ تیل کی قیمتیں مسلسل گرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کے روز تیل کی قیمت 16ڈالر فی بیرل پر آگئی۔ پچھلے بیس سالوں میں تیل کی اتنی کم قیمت نہیں دیکھی گئی۔
تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک خصوصاًسعودی عرب اور امریکہ کی معیشت بے حد متاثر ہے۔ روس کسی حد تک اِ س سے اتنا متاثر نہیں ہے۔ شاید وہا ں کرونا وائرس کا اس قدر زور نہیں جس قدر سعودی عرب اور امریکہ میں ہے۔ اس لیے اس سال سعودی عرب کو تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 58 ارب ڈالر کا قرض لینا پڑے گا۔ بلوم برگ نے سعودی وزیرخزانہ محمد الجدان کے حوالے سے رپورٹ دی ہے جس کے مطابق الجدان نے میڈیا کو بتایا کہ رواں سال شاہی حکومت 26.57 بلین ڈالر کے بانڈز جاری کر سکتی ہے۔
جو اسی سال اس سے پہلے 31.88ارب ڈالر کی قیمت کے لیے گئے قرض کے علاوہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سعودی آرامکو آئل کمپنی اپنے 10 ارب ڈالر کے شیئرز فروخت کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہے۔ امریکی کانگریس کے مطابق رواں مالی سال میں مرکزی حکومت کو 3.7 ٹریلین ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر امریکہ کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ امریکہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو گا۔ اس سے پہلے امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑا بجٹ خسارہ سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور میں دیکھنے کو ملا جو کہ 1.4ٹریلین ڈالر تھا۔
پچھلے بیس سال میں خام تیل کی کم ترین قیمت سے واضح ہے کہ اوپیک پلس معاہدہ بھی کسی حد تک کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تمام تر صورتحال گزشتہ ماہ روسی صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ایک کال کی وجہ سے پیدا ہوئی۔دونوں رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد دنیا بھر میں آئل مارکیٹس اور قیمتوں میں بگاڑ پیدا ہوا۔اسی صورتحال کی وجہ سے پچھلے ہفتے تیل کی قیمتیں صفر سے بھی نیچے گرگئیں۔اس تمام تر صورتحال سے واضح ہے کہ عالمی معیشت کے لیے مستقبل میں کوئی اچھی خبر نہیں۔ابھی تک عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آرہی۔ کم آمدنی والے ممالک کے لئے اسے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو پوری دنیا تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے دو چار ہو سکتی ہے۔