ناوول کورونا وائرس (کویڈ۔19) دنیا کی بیشتر آبادی کیلییاب انجانہ لفظ نہیں رہا ہے۔ اس وائرس کی تباکاریاں معاشی میدان میں ہو یا انسانی جانوں کی اس ننھے وائرس کے سامنے بے بسی ہیں یہ موضوع دنیا جہاں کے تمام میڈیا ذرائع خواہ الیکٹرانک ہو، پرنٹ ہو یا سوشل میڈیا اور کوئی بھی زبان ہو کورونا وائرس ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جس کے روک تھام کے لیے تمام ممالک، ترقی یافتہ ممالک سے لیکر ترقی پذیر دنیا تک سب اس وائرس سے اپنے اپنے انداز میں نبردآزما ہیں جس نے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور کر دیا ہے یہ وہی لاک ڈاؤن ہے جس کا کشمیری مظلومین گزشتہ نو ماہ سے سامنا کر رہے ہیں۔
اس وائرس سے تمام ممالک اپنے اپنے وسائل کے مطابق نمٹنے کی سعی کر رہے ہیں مگر یہ وائرس ہے کہ پھیلتا ہی جارہا ہے اس کی پھیلنے کے اسباب کیا ہیں یہ سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کی بہتر روک تھام ہو پائے گی۔پھیلنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام اس کو اپنامسئلہ سمجھتے نہیں بلکہ حکومت کا مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقت وائرس عوام پر حملہ آور ہے۔ اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ حکومتیں بنتے ہی عوام کے فلاح و بہبود کیلئے ہیں مگر اس وائرس کے پھیلاؤ کی نوعیت یکسر الگ ہے کیونکہ اس کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے جس کا گلہ شکوہ حکومت سے کیا جاسکے کہ لا پرواہ اور غافل حکومت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے نظام صحت ہیں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ بھی بہتر انداز میں اس وائرس کے متاثرین کو سنبھال سکیں۔ وہاں ترقی پذیر ممالک کی بات کرنا ہی نامناسب ہے۔
جس کی پھیلاؤ کو روکنے کیلیے حکومتیں لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوگئیں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے عوام کو اس وبا سے بچایا جاسکے مگر عوام یہ دیکھنے بھی باہر آتی ہے کہ لوگ باہر آئے ہیں یا نہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر احتیاطی تدابیر اپنانے کا مہم چلا رہے ہیں مگر عوام ہے کہ سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کر رہی کیوں کہ کویڈ۔19 کے خلاف جاری جنگ کو عوام اپنی جنگ ہی نہیں سمجھتی بلکہ الٹا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ان کے عظیم تر مفاد میں ہونے والے لاک ڈاؤن کو حکومت کی فضول مشق سمجھ کر اسے نظر انداز کیاجارہاہے جسیا کہ لاک ڈاؤن سے حکومت کو فائدہ مل رہا ہو۔
جبکہ درحقیقت لاک ڈاؤن سے خود حکومتوں کے راتوں کی نیندیں آڑی ہوئی ہے بلکہ ان کی معیشت بیٹھ گئے ہیں۔ بلکہ غریب اور داڑھی دار مزدور فاقوں پر آگئے ہیں جو آگے چل کر ان حکو مت کے لئے اور مشکل کھڑی کر دیں گے ایک کہاوت ہے کے علاج سے پرہیز بہتر ہے جبکہ ابھی تو اس وبا کا کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہوا ہے مگر اس سے بچاؤ کا طریقہ تو موجود ہے جسے اپنا کر خود کو اور اپنے پیاروں کو بچایا جا سکتا ہے پہلے اقدام کے طور پر اس کے خلاف جاری جنگ کو عوام نے اپنی جنگ سمجھنا ہوگا اور اس وباء کو عوام نے اپنا مسئلہ سمجھنا ہوگا اگر اس جاری جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھیں گے تو اس کی متاثرین پچیس لاکھ کی بجائے کروڑ تک جا پہنچیں گے۔
اور اموات ایک لاکھ 75 کے بجائے (خدا نہ کرے) کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا ہے جس کے لئے پوری کائنات کا تسخر کرنا مشکل نہیں ہے۔اس جان لیوا وائرس سے جاری جنگ جیتنا بھی ضروری ہے۔ اور انسانیت کی بقاء کے لئے اس جنگ کو جیتنا بھی چاہیے جو مشکل ہر گز نہیں ہے۔اس وائرس کا وجود چونکہ اتنا نہیں ہے کہ روایتی جنگوں کی طرح ان کے خلاف لڑا جا سکے یہ جنگ روایتی ہتھیاروں کی نہیں بلکہ بحیثیت انسان اپنے شعور، فہم اور ادراک سے لڑنا ہوگا ضد، انا، گھمنڈ اور تمسخر سے ہم جنگ کو اس بری سے ہار جائیں گے کہ ہمیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں (اللہ تعالیٰ نے کریں) لاشیں اٹھانی پڑیں گی یہ جنگ چونکہ شعور،فہم اور ادراک سیلڑی جانے والی جنگ ہے جنگ کی پہلی اسٹریٹیجی کے طور پر سب سے پہلے عوام کو اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھناہوگا دوسرے مرحلے میں شعور اور فہم کے ہتھیار سے ضد، گمنڈ اور انا سے نہیں۔
اس کو شکست فاش دے دینا ہوگا شعور اور فہم کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر من وعن نہ صرف خود عمل کرنا ہوگا بلکہ جو اس جاری جنگ سے بے خبر یا عالم ہے ان کو بھی احتیاطی تدابیر اپنانے سے متعلق آگاہ کرنا ہوگا تاکہ اس جاری جنگ کی جیت کو جلد سے جلد شرمندہ تعبیر کیا جا سکے جس کے لیے اپنی روزمرہ کی ترجیحات کی لسٹ بھی بنائی جا سکتی ہے جس میں انتہائی ضروری کام کر لیے جائے جبکہ دوسری ترجیحات والے کام وبا ختم ہونے تک یا جب تک ممکن ہو ٹال دیا جائے تاکہ باہر جانے کی ضرورت کم سے کم پیش آئیں اور جو ضروری کام ہو ان کو بھی قریبی سٹور پر پورا کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ زیادہ دیر باہر رہنے کی نوبت نہ رہے، باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال ضرور کریں عدم دستیابی پر کسی موٹے کپڑے سے بھی منہ ڈھانپا جاسکتا ہے۔
باہر سماجی دوری کا بھی ہر صورت خیال رکھا جائے اور باہر سے سودا سلف پر گھر آتے ہی سب سے پہلے صابن یا اینڈواش سے ضرور ہاتھ دھوہیں۔ہاتھ دھوئے بنا آنکھوں۔منہ اور ناک کو چھونے سے گریز کریں انتہائی ضرورت کے علاوہ کسی صورت گھروں سے باہر نہ جاہیں نہ یہ دیکھنے باہر جاہیں کہ لوگ باہر آئے ہیں یا نہیں۔ یہ جاری جنگ ہر ایک نے ذاتی طور پر لڑنی ہے ان احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے تو انسان کی جیت اور وائرس کی شکست یقینی ہے۔ اس وباء نے ایک اورحقیقت بھی افشا کردی ہے کہ سرمایہ دار (سب کی بات نہیں کر رہا) کس قدر بے رحم ہے جو دہائیوں تک کماتے رہے ہیں مگر چند مہینوں کی تنخواہیں اپنی محنت کش بھائیوں کو مشکل کی اس گھڑی میں نہیں سکتے ہیں۔
جس نے رائج معاشی نظام پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کو ہرصورت بدلا جائے اور اس کی جگہ ایسا کامیاب معاشی نظام لایا جائے جس میں کسی کو بھوکے پیٹ سونے،لاعلاج مرنے اور بے تعلیم رہنے کا خوف نہ ہو۔ دنیا کئی معاشی نظاموں کو آزما کے دیکھ چکی ہے جو بحران کے وقت مکمل ناکام ثابت ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو اپنایا جائے جس میں بنی نوع انسان کی بقاء مضمر ہے۔