نوجوانوں کی صلاحیتیں عظیم ترین ذخیرہ اور بہترین خزانہ ہیں،ان کی رہنمائی کے ذریعے ہمہ قسم کی کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، نوعمری کامرحلہ لڑکپن، صغرسنی اور ناتجربہ کاری سیکھنایہ ہے، اس مرحلے میں انسان کی قوتِ ادراک کمزور اور فکر و سوچ ناقص ہوتی ہے، صغر سنی میں انسان دوسروں سے متاثر اور مرعوب ہونے کا رسیا ہوتا ہے، بنا سمجھے دوسروں نقالی، مشابہت اور ادا کاری کرنے لگتا ہے، عام طور پر مشکل کام معمولی اشارے، بڑوں کی رہنمائی اور تھوڑی سی مدد سے ہی کرتا ہے۔جس وقت بھی نو عمر لڑکوں یا لڑکیوں کو کوئی بھی مثالی شخصیت نظر آئے تو اسی کی طرف میلان کر لیتے ہیں۔
اسی کی صفات اپنا کر اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ویسے ہی کام کرتے ہیں، عام طور پر اسی کا ذکر زبان زد عام ہوتا ہے، اسی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، اسی کے گن گاتے ہیں اور اپنی شکل و صورت اس جیسی بناتے ہیں، اپنی چال ڈھال اور لباس اسی جیسا اپناتے ہیں، نو عمر اپنی سوچ اور رویے میں اسی کو آئیڈیل سمجھتے ہیں۔بچپن، نو عمری اور کچا ذہن؛ سادگی اور معصومیت کا گہوارہ ہے، اس مرحلے میں فطانت، ذہانت اور تجربہ کاری کم ہوتی ہے، چنانچہ نو عمری میں اگر کسی غیر معتمد شخص کی رفاقت ملے جس کے عقیدے، امانت اور دیانت کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں تو یہ خبیث انسان انہیں غیر محسوس طریقے سے گمراہ کر دیتا ہے۔
وہ باطل کے چنگل میں انہیں پھنساتے ہوئے ذرا احساس نہیں ہونے دیتا، اور لا علمی میں نو عمر لڑکوں کو زہر کا پیالہ پلا دیتا ہے، اس خبیث شخص کے معاونین دین، ملک، اہل خانہ، اور عزیز و اقارب سب کے مجرم اور دشمن ہوتے ہیں، لیکن نو عمر جوان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔کچھ لوگ درندہ صفت اور چیر پھاڑ کر دینے والے بھیڑئیے اور شکاری پرندے کی طرح اچکنے والے ہوتے ہیں، انہیں انتظار ہوتا ہے کہ کب سرپرست کی توجہ ہٹے اور پدری شفقت رکھنے والا باپ اپنے بچوں سے غافل ہو اور ہم معصوموں کو اچک لیں۔
جو شخص اپنی اولاد کو درندوں کی وادی عبور کرنے اور بھوکے بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کیلیے اکیلا چھوڑ دے!اندھیری راتوں اور ریگزاروں میں تنہا چلنے دے تو حقیقت میں اس نے اپنی اولاد کا سودا کر کے ضائع کر دیا، نیز انہیں بد ترین مخلوق کے چنگل میں پھنسا کر ان کے لیے ہدف کو مزید آسان بنا دیا! اس وقت گروہ بندی، لادینیت میں مصروف تحریکیں اور تنظیمیں نوجوانوں کے دلوں میں ہمارے دین، حکمران، علما اور ملک کے بارے میں کینہ پیدا کر رہی ہیں۔اے بے باک نوجوان! دیکھنا کہیں دھوکا مت کھانا، اور کسی بھی فتنہ پرور کی بات پر کان مت دھرنا، اپنے گھر، وطن، اخلاقیات، عزت آبرو اور دین سے دور مت نکل جانا۔
اے صحرائے گم صم میں چندھیائی ہوئی آنکھیں لیکر سرگرداں پھرنے والے!
اے بنجر زمین کو بغیر زادِ راہ اور پانی کے عبور کرنے والے!
باز آجاؤ! بصیرت سے کام لو! پہلے دیکھو !اور عقل کے ناخن لو!
اپنے مولا کی جانب متوجہ ہو جاؤ!
اپنے ہاتھوں سے کئے ہوئے گناہوں سے توبہ کرو!
خطاؤں اور برائیوں سے باز آ جاؤ؛ کیونکہ (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے کہ جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں)
سرپرست اور والدین! عبرت حاصل کریں، اور اپنی اولاد کا خصوصی خیال رکھیں، آپ کے آس پاس گھومنے پھرنے والے لوگوں پر کڑی نظر رکھیں، ان کی دھوکا دہی سے بچیں یہ مکر و فریب کے ساتھ نظریات کو زہر آلود کرتے ہیں اور نو عمر لڑکوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں۔بچے جب لڑکپن سے بلوغت کو پہنچنے لگیں تو انہیں خصوصی وقت دیں، ان کا پہلے سے زیادہ خیال رکھیں، آپ کی اولاد آپ کی اسی وقت بنے گی جب تک آپ ان کیلیے الفت، پیار، نرمی، محبت، شفقت، اور خیر خواہی والا معاملہ اپنائیں گے، اور اگر آپ حقارت، ہتک عزت اور اہانت کرینگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے نکل کر دشمن کی جھولی میں جا بیٹھے گی۔
لہذا ان کی بات غور سے سنو، اگر تم سے کچھ پوچھیں تو انہیں بتلاؤ، اگر کچھ سیکھنا چاہیں تو انہیں سکھاؤ، اور جب تم سے مشورہ مانگیں تو ان کے سامنے اپنی زندگی کے تجربات رکھو، لہذا ہر سوال پر طیش مت کھاؤ، اور تشنگی باقی مت رہنے دو، کبھی بھی آگ بگولا، اور اتنا سخت مزاج مت بنو کہ ہر وقت غیض و غضب سے بھرے رہو۔محبت بھرے کلمات دل صاف کر دیتے ہیں، حکمت بھری باتوں سے تسلی ملتی ہے، اور صاحب عقل کیلیے عقلمند ی پر مبنی بات چیت ہی کافی ہے۔
ماہرینِ تعلیم!
اس وقت تک بیماری بے قابو نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی دوا کم پڑ سکتی ہے جب تک آپ جیسے فاضل اساتذہ کرام اور وفا شعار معلمین اور تربیت کرنے والے ہوں گے، اس لیے ہمارے جوانوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ کا خوف ذہن میں رکھیں! ہمارے بچوں اور اولاد کی صحیح تربیت کریں اور ہمارے معاشرے کو کسی بھی در آمد شدہ نظریے اور مذموم اخلاق سے بچائیں۔.