|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2020

عجیب مرد مجاہد تھا جو سماج میں سماجی معاشی سیاسی تبدیلی قبائلی و فرسودہ روایات سرداری جاگیرداری سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پر امن طبقاتی تضادات سے پاک یکساں حقوق کی فراہمی معاشرتی و ریاستی جبر ناروا سلوک قومیتوں کی بنیادی حقوق و واک اختیار کے حصول، برادر کشی قبائلی جھگڑے و اس آڑھ میں قبائیلیوں کے درمیان نفرتوں کی دیوار یں کھڑی کرکے اپنی قوت و طاقت کو منقسم کرکے آپسی جنگ و جدل میں مصروف بلوچ قوم کی حقوق سے بیگانگی ریاستی استحصال ساحل و وسائل بیش بہا قیمتی معدنیات سونے چاندی کے خزانوں کی بے دریغ لوٹ مار نے سیاسی طور پر ان کے دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔

وہ خوشحالی امن ترقی استحصال سے پاک دنیا بھر کے محکوم قوموں کی قومی آزادی کا مشن لیکر سیاست کے میدان کار زار میں کھود پڑا -کامریڈ واجہ خدا بخش بلوچ کا بنیادی تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے تحصیل وڈھ سے تھا جب ہوش سنبھالا تو ہر طرف ظلم جبر، بربریت انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل ان کی بے حرمتی قبائیلی سرداروں کی خود ساختہ قوانین قید و بند اور سزا و جزا کے پیمانے غریب عوام پسے ہوئے طبقات کا استحصال ایسے رواج پا گئے تھے جیسے یہ خدائی قانون ہوں، ان کے اندر کے انقلابی سوچ نے کروٹ لی اور اپنے ارد گرد کے ماحول سیاست میں مخصوص خاندانوں کی اجارا داری استحصال جبر ناروا سلوک غریب عوام کی سیاسی معاشی ترقی کے راہ میں حائل رکاوٹوں نے ان کے اندر پنپنے والی انقلابی شعور نے مہمیز دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اور بی ایس او جیسی انقلابی تنظیم میں شامل ہوگئے۔ اس دور میں بی ایس او نے تمام محکوم قوموں کی قومی آزادی کی تحریکوں سے متاثر ہو کر ایک جدا گانہ تحریک کا آغاز کیا تھا اس وقت یو ایس ایس آر محکوم قوموں کی نگاہوں کا مرکز اور قومی آزادی و سوشلسٹ انقلابیوں کی قبلہ و کعبہ تھا۔یو ایس ایس آر کا انہدام اور مختلف ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد گو کہ سیاست و نظریات کے رخ تبدیل ہوگئے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا سوشلزم کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لی جہاں قومی تحریکوں کو نقصان پہنچایا وہاں دولت کے ارتکاز و کنٹرول نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔

دور جدید میں نجی ملکیت کے تصور نے پوری دنیا میں ہیجان انگیزی پیدا کردی ہے غریب غریب سے غریب تر جبکہ امیر امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سمجھ لیا جائے جس وقت کامریڈ واجہ خدا بخش بلوچ بی ایس او کے کارواں میں شامل ہوئے اس وقت بی ایس او اپنے پورے آب و تاب میں تھی ایک پر آشوب دور تھا باقی پارٹیاں یا تو وجود نہیں رکھتی تھیں یا انڈر گراؤنڈ چلی گئی تھیں،بی ایس او واحد تنظیم تھی اپنی وجودیت کے ساتھ ساتھ بر سر پیکار تھی ہرکوئی بی ایس او سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، اس وقت چیئرمین ایوب جتک بی ایس او کی قیادت کررہے تھے جب وہ بی ایس او میں شامل ہوگئے۔

وقت گزرتا گیا ان کے ذہن میں پختگی فکری بالیدگی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوتا گیا درجنوں کونسل سیشن میں شرکت کی اور درجنوں چیرمین کی قیادت میں ایک انقلابی کامریڈ کی طرح قومی جد وجہد میں سینہ سپر رہے، وہ ایک غریب ونا تواں شخص تھے مگر تھے باہمت، اپنے ذاتی خواہشات کو تیاگ کر ہر قسم کی رکاوٹ کو پاؤں تلے روندا۔ کوئی خاندانی سیاسی پس منظر نہیں رکھتا تھا ان کی جیب ہمیشہ خالی رہتی لیکن ان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ بی ایس او سے جنون کی حد تک محبت تھی ان کا اوڑھنا بچھونا بی ایس او تھا وہ استادوں کے استاد تھے سرکل لگایا کرتے تھے نوجوان سیاسی طالب علموں کو سیاسی شعور سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں لگے۔

سقراط،ارسطو، افلاطون، کارل نشطے،ہیگل، مارکس، لینن، روسو، میکاؤلی،فرازفینن کے سیاسی افکار ہوں یا ماؤزے تنگ، چے گویرا جیسے انقلابیوں کے سیاسی گائیڈ لائن انقلاب فرانس ہو یا مزدور تحریکوں کا احیاء پہلی و دوسری جنگ عظیم کے اسباب و عوامل برصغیر میں انگریزوں کی آمد ایسٹ انڈیا کمپنی قیام، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے مغلیہ سلطنت کے زوال قیام پاکستان اور بلوچستان پر جبری الحاق،ریاست قلات کے قوانین کا کردار،پرنس عبد الکریم کی بغاوت، جنرل ایوب یحییٰ خان بھٹو کی خون آلود دور، ضیاء الحق جنرل پرویز مشرف کی بلوچستان پر فوج کشی نواب اکبر بگٹی کی شہادت، نواب خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی مزاحمت، میر غوث بخش بزنجو مفاہمتی اور عدم تشدد کی پالیسیوں پر گھنٹوں لیکچر دیا کرتے تھے۔

کامریڈ ایک مکمل سیاسی استاد تھے تعلیم سطحی تھی مگر معلومات اور علم وسیع تھا وہ تعلیم روزگار اور سیاست کو ساتھ لیکرچلنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ساتھ چل نہ سکے اس لئے روزگار کی خاطر حب ہجرت کی لیکن حب میں بھی روزگار سے زیادہ بی ایس او سے جڑ گئے اور اسی خاطر دوبارہ داخلہ لیکر پھر سے وابستہ شجر رہے، طویل عرصے تک بی ایس او سے وابستہ رہے پھر غم روزگار نے جھکڑ لیا لیکن جیسا کہ میں نے کہا سیاست کامریڈ کا اوڑھنا بچھونا تھا وہ سیاست کے بغیر کیسے رہ سکتے تھے۔بی این ایم اور نیشنل پارٹی میں سرگرم رول ادا کیا، گراں قدر خدمات انجام دی، ان کا کامل ایمان تھا پارلیمانی سیاسی جد وجہد کو بنیاد بناکر ایک نئے عمرانی معاہدے کے نتیجے میں قومی سوال کے حل کو ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

قومی بقاء و قومی تشخص بلوچ قوم کی سب سے بڑی چیلنج ہے وہ ایک متحرک ایماندار پر خلوص شخصیت کے مالک تھے انتہائی نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض کو نبھایا جیسا کہ میں نے اوپر اس بات ذکر کیا ہے کہ وہ غریب تھے لیکن اس نے کبھی اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا، ان کے خلاف کسی نے آج تک یہ شکایت نہیں کی کہ اس نے کسی فیکٹری سے بی ایس او یا پارٹی کے نام پر بھتہ مانگا ہو یا کسی کو بلیک میل کیا ہو، ان کا اخلاص ان کی سیاسی و فکری پختگی کی واضح دلیل تھی ہر احتجاجی مظاہرے کا روح رواں سمجھے جاتے تھے جیل سے ڈرتا تھا اور نہ ڈنڈے سے،انہی احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی بار جیل کی یاترا کی ڈنڈے بھی کھائے سڑکوں پر گھسیٹے بھی گئے۔

زخمی بھی ہوئے ان کا ایمان تھا یہ سب کچھ سیاست کے حصے ہیں۔ ترقی خوشحالی حقوق کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا اس کے لئے سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں کوئی ایسی تحریک نہیں تھی جس سے وہ خود کو پیچھے رکھتے، بی ایس او کے دوران سیاست میں منشیات کے خلاف ایک موثر آواز تھے اخباری بیانات کے ذریعے اور جلسے جلوسوں میں منشیات کے اڈوں سمگلروں اور ان کے نیٹ ورک کے خلاف ہمیشہ صف اوّل میں رہے، ان کا کردار فرنٹ لائن سپاہی کا تھا منشیات کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے خود منشیات کا شکار ہو گئے۔

جس طرح ڈاکٹر نرسز جو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے فرنٹ لائن سپاہی کا کردار ادا کرتے ہوئے وائرس کا شکار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح کامریڈ واجہ بھی اس خطرناک وائرس کا شکار ہو گئے ہیں، ایک دہائی سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سیاست تھا۔ گزشتہ دنوں کامریڈ کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے میں اپنی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ہوں، وہ کہہ رہے تھے برے سنگتوں اور بری صحبتوں کی وجہ سے میں منشیات کا عادی ہو گیا ہوں میں اس زندگی سے نکلنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنا علاج کرسکوں، چھوٹی سی سرکاری نوکری ہے ان پیسوں کو اپنے گھر والوں اور والدین کیلئے بھیجتا ہوں میرے سوا انھیں دینے والا کوئی نہیں ہے۔

اور خود کندھوں پر بوری اٹھائے کوڑے اور کچرے کے ڈھیروں سے کاغذ چن کر بیچنے پر اس لئے مجبور تاکہ اپنے نشے کی ضرورت پورا کرسکوں۔ یہ ویڈیو دیکھ کر دل خون کے آنسوں رونے لگا ان کی بے بسی لاچارگی مایوسی ان کے چہرے سے عیاں تھی وہ ایک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں مگر غربت آڑے آرہی ہے وہ اپنا علاج خود نہیں کرسکتے، یہ ویڈیو ایک کامریڈ کا نوحہ تھا کہ اس نے اپنی زندگی پانچ قیمتی بہاریں سیاست کی نظر کی ہیں ان کا مال ومتاع ان کی دولت سیاست تھی انہوں نے اس سیاست میں دولت نہیں کمائی تھی عزت کمائی تھی مگر سیاست دوست سنگت کامریڈ تعلقات مشکل وقت میں کوئی کام نہیں آرہا ہے۔

جوانی سیاست میں لٹائی ہے اب اسے بچانے والا کوئی نہیں ہے منشیات کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے،ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے یہ ویڈیو ایک اپیل تھی کہ کامریڈ کو بچائیے انھیں اس لعنت سے چھٹکارا دلائیے میں نے کامریڈ کی ایک شاگرد کی حیثیت سے اس کا نوحہ آپ تک پہنچایا۔مہربانو! دیر مت کیجئے کامریڈ کی مدد کریں قطرہ قطرہ قطر سے دریا بنتا ہے ان کے ساتھی ان کے سیاسی شاگرد الحمدللہ صاحب ثروت و حیثیت ہیں اپنے استاد کی جان بچانے کے لیے انھیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے کامریڈ کی مدد کی جائے ورنہ ابھی میں نے ان کا نوحہ لکھا ہے ایسا نہ ہو کہ ان کا مرثیہ لکھنے بیٹھ جاؤں، پر کچھ نہیں بچے گا،کل کو جب کچرے اور کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ چنتے چنتے ان کی لاش کسی کچرے کی ڈھیر سے بر آمد ہو تو ہم سب مجرم ٹھہریں گے اور تاریخ کے اوراق میں شرمندہ و شرمسار ہونگے۔

حب اس وقت منشیات کا ”گردی جنگل“ہے ڈمپنگ اسٹیشن ہے گڑھ ہے لیکن نہ منشیات کے اڈوں اور سمگلروں کے نیٹ ورک کے خلاف کوئی ایکشن لیا جارہاہے ہے اور نہ ہی منشیات کے عادی افراد کے لئے ریحبلیٹیش سینٹر کے قیام کے لئے کوشاں نظر آتی ہے۔ آئے روز منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ان عادی افراد کی بحالی کے لیے سینٹر کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے یہاں راتوں رات باپ جیسی پارٹی بن سکتی ہے اقتدار مل سکتی ہے، آئسولیشن وارڈ بن سکتے ہوں تو بحالی سینٹر کیوں نہیں بن سکتے، ہمیں دھمکیاں ملتی ہیں کہ خاموش ہو جاؤ لب سی لو ورنہ آپ کا انجام بہت برا ہوگا ان لوگوں کے لیے میرا پیغام ہے میں عطاء

شاد کی سر زمین کا والی وارث ہوں جو کہتے ہیں کہ”””
کو ہساروں کی عطاء رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے