|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2020

سماج میں انسانی ارتقائی عمل کے مختلف ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی طور پر قدیم اشتراکیت کا دوروجود میں آیا ہے۔ طبقاتی نظام کی ابتداء جاگیردارانہ نظام کے تحت زمین اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں عوام پرظلم و ستم کے لازوال تاریخیں رقم ہوئی ہے۔ اور جاگیردارانہ نظام کا طویل عرصہ غلامانہ دور پر محیط رہا ہے۔ جاگیرداری نظام کی جگہ سرمایہ دارنہ نظام وجود میں آیا۔صنعتی انقلاب نے کروٹ لی اور امریکہ اور برطانیہ کے ریاستوں میں اس نظام کی اصلی شکل ابھر کر سامنے آئی۔

سامراجی طاقتوں نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا اور سامراجی ممالک نے دنیا بھر میں کمزور ممالک کا استحصال شروع کیا۔یہاں تک کہ خود ان ممالک میں طبقاتی ٹکراؤپیداء ہوا۔یہ تاریخ ہے کہ سرمایہ داری کے وجود کے آنے کے بعد اس نظام کو چلانے کیلئے مزدور طبقہ کا وجود عمل میں آیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ دار،سرمایہ داری نظام کو چلانے کیلئے مزدور طبقہ کا بھرپور استحصال کیا۔ اکثر اوقات سرمایہ دار مزدوروں کو اپنے کارخانوں میں ہی رکھتا جہاں ان سے اٹھارہ اٹھارہ،بیس بیس گھنٹے روزانہ کام لیا جاتا تھا۔ محنت کش صبح سویرے اندھیرے میں گھر سے نکلتے اورات گئے گھر لوٹتے تھے۔

رفتہ رفتہ جب مزدور طبقہ کو کچھ طبقاتی شعور پیداء ہوا تو اس نے اپنے تحفظ اور اپنے حالات کار کو بہتر بنانے کیلئے تنظیمیں بنانا شروع کیں اور یوں ٹریڈیونینز کا تصور پیداء ہوا۔یونین کے ذریعے سے ہی مزدور طبقہ نے آہستہ آہستہ اپنے اوقات کارکی کمی کیلئے جدوجہد شروع کی اور آخر میں اس ہی جدوجہد کا نتیجہ امریکہ میں یوم مئی کی شکل میں ابھر ا۔ اورمزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں آٹھ گھنٹہ کا اوقات کار مقرر ہوا۔یوم مئی کے اس جدوجہد نے یہ ثابت کردیا کہ سرمایہ داری نظام استحصالی ہے اور اسے ہر حالت میں بدلنا ضروری ہے۔

اس حوالے سے مزدور طبقہ نے ایک انقلابی کردار اپنایا اورعصر حاضر کے عظیم فلاسفر وں نے اس نظام کو بدلنے کیلئے سائنسی تجزیہ پیش کیا اور بتایا کہ اس استحصالی نظام کو سائنسی انداز میں سمجھنے سے ہی اسے بدلا جاسکتا ہے سب سے پہلے اس نظریہ کو کمیونسٹ مینوفیسٹو کے ذریعہ پیش کیا اور سائنسی انداز میں مزدور طبقہ کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے بتا یا کہ کس طرح صرف انقلابی مزدور طبقہ کی سرکردگی میں یہ نظام بدلا جاسکتاہے۔

ماکسزم نے مزدور طبقہ کو بتایا کہ ٹریڈ یونین بناکر اپنے مطالبات کیلئے فیکٹری اور کارخانے میں جدوجہد کافی نہیں ہے بلکہ سامراج کے استحصالی نظام کو ختم کرنے کے لئے اس طبقہ کو انقلابی طریقہ سے منظم ہونا پڑے گا اور یہ کہ مزدور طبقہ صرف ٹریڈیونینز بناکرسامراجی نظام کو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی سوشلسٹ معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے خاطر مزدور طبقے نے اپنے بقا کیلئے بہت سے تنظیمیں بنائیں مگر حالات نے یہ ثابت کردیا کہ ایک انقلابی سیاسی پارٹی ہی مزدور طبقہ کے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہیں اس معاشرے سے سامراجی استحصالی نظام کا خاتمہ کرسکتی ہے۔

جو صرف حالات کار کی تبدیلی کی ہی خواہش مند نہ ہوبلکہ جدوجہد کے ذریعہ مزدور طبقہ کے انقلابی سرکردگی میں محنت کش عوام کو اقتدار کے زریعے صنعتی و زرعی اصلاحات کا نفاذعمل میں لایا جائے۔تاکہ سوسائٹی کو ازسرنو انقلابی کردار کے ساتھ تشکیل دے سکیں۔آج ہماے ملک کو قایم ہوئے 70سال ہوگئے مگر اس پر جاگیرداروں کا ہی قبضہ ہے۔اس طویل عرصہ میں ملک پر جاگیردار سرمایہ دار اور فوج جرنیل قابض رہے بلکہ ریاستی سرپرستی میں قدیم بوسیدہ و فرسودہ قبائلی اور جاگیرداری نظام ہی کوبرقرار رکھا گیا ہے۔نام نہاد جمہوری انتخابات کے ذریعے بھی فوج اور بیوروکریسی کے پشت پناہی میں جمہوریت کا ڈھونگ رچا کرآج بھی اپنے مرضی منشاء کے نمائندے منتخب کئے جاتے ہیں۔

اس پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے اصلاحات لانا اور نافذ کرنا جو خود ان نمائندوں کے اپنے مفاد سے متصادم ہوں آج کے معروضی حالات میں ناممکن ہے۔چونکہ پارلیمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ اور فوجی جرنیلوں نے نام نہاد عوامی نمائندوں کے زریعے اپنے کنٹرول میں رکھاہے۔تاکہ ملکی وسائل کوبے دریغ لوٹا جاسکیں۔بلکہ ان نام نہاد نمائندوں کوماروائے آئین و قانون غریب محنت کش عوام پرظلم و ستم کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔جو ہمیشہاسٹیبلشمنٹ کا وفادار رہاہے۔

اس لئے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں اور ملک کی معیشت چلاتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ و سول و فوجی بیوروکریسی کے مفادات کا تابع ہو۔ اس بناء پر ہمارے معاشی بد حالی کی ذمہ داری ہمارے موجودہ سیاسی ڈھانچے پر عائدہوتی ہے۔ایک عالمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وطن عزیز کی آدھی سے ذیادہ دیہی آبادی غربت بھوک افلاس میں زندگی بسر کرتی ہے وہ بڑے بڑے جاگیرداروں کیلئے خام ما ل پیداء کرتی ہے مگر خود فاقہ کشی کا شکار ہے۔ملک کے ان5%پانچفیصد آبادی تمام ذرائع پر قابض ہے اس طرح ملک کے سرکاری خزانے کو ان نام نہاد عوامی نمائندوں کے ہاتھوں سالانہ اربوں و کھربوں روپے کے نقصانات اٹھانا پڑتا ہے۔

اس سیاسی اور معاشی پس منظر میں استحصالی طبقے اورحکمران جو اقتدار کے ساتھ اتنی طاقت اور دولت رکھتے ہیں۔کہ انہیں غریب عوام کے حالت زار کا کوئی د کھ درد نہیں ہے بلکہ وہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ملک کے اقتصادی حالت اور نظام کو بہتر بنانے سے گریزاں ہے۔تاکہ غریب عوام اور ان کے نسلوں کو اسی طرح پسماندہ رکھ کر حکمرانی کی جاسکے۔آج پاکستان کا ہرشعبہ انحطاط پذیر نظر آتاہے۔

ریاست کی عملداری معدوم ہوکر رہ گئی ہے معاشی اشاریہ روبہ زوال ہے ریاست اور شہریوں کے بیچ اعتماد کا رشتہ ختم ہوچکا ہے۔ اس وقت پاکستان ترقی کے راہ میں جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک سے پیچھے ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں پچھلے70سالوں میں ان پڑ ھ لوگوں کے تعداد میں تین گنااضافہ ہوچکا ہے اور ملک میں تعلیم کا معیار دن بہ دن گرتاجارہا ہے یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس میں پاکستان کے غریب محنت کش عوام کی اکثریت اپنے سیاسی،سماجی اورمعاشی مسائل کو سمجھنے سے قاصرہے۔

جس کی سبب غریب عوام کا گزشتہ 70سالوں سے استحصال و ظلم و نا انصافی جاری و ساری ہے۔جو نصف صدی سے ریاستی پشت پناہی میں غریب عوام پرغیر انسانی و غیر اخلاقی بے رحمانہ تسلط قائم رکھے ہیں۔ اس طرح موجودہ سماج میں جاگیرداروں کا کنٹرول مختلف تہوں میں پایا جاتا ہے اور جن میں ہر ایک تہہ دوسرے سے ذیادہ بے رحم ہے یہ عوام میں کسی قسم کی برابری کے قانون او ر مواقع پیداء ہونے دیتے ہیں ہے جس کی وجہ سے موجودہ استحصالی طبقے امیر سے امیر تر ہوئے اور عوام غریب سے غریب تر ہورہاہے۔ ہمارے ملک میں ہونے والے سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاست میں منافقت او ر ابن الوقتی کا عنصر بھی جاگیردارانہ کلچر کے وجہ سے ہے۔ان تمام تر نقصانات و تباہی کا ذمہ دار ان بااثر جاگیردار اور قبائلی سردار و نام نہاد عوامی نمائندوں پر عائد ہوتا ہے۔