|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2020

نصیرآباد کئی وجوہات کے باعث بلوچستان کا انتہائی اہمیت کاحامل علاقہ ہے، صوبے کاگرین بیلٹ اور زرعی علاقہ ہے پٹ فیڈر کینال کی بدولت نصیرآباد کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ 1974میں نصیرآباد کو ضلع کا درجہ دیاگیا،اس وقت جعفر آباد صحبت پور بھی نصیرآباد کے حصے تھے 1987 میں جعفر آباد کو نصیرآباد سے الگ ضلع بنایا گیا، نصیرآباد کا ہیڈ کوارٹرہونے کے ساتھ ساتھ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے اس شہر اورضلع کا اصل نام ٹیمپل ڈیرہ تھا، کیپٹن ایچ ایم ٹیمپل کے نام پر رکھا گیا ہے، جو کیریئر برطانوی سرکاری ملازم تھا، جس نے 1891 سے 1892 تک سبی کے پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔

ڈیرہ مراد جمالی کی مقامی آبادی کی اکثریت اسے ابھی تک ‘ٹیپل’ کہا کرتی ہے، کافی عرصہ بعد غالباً،جولائی 1987 سے دسمبر 1990 تک، یہ ضلع تمبو کے نام سے جانا جاتا تھا.تمبو نصیرآباد کا ایک قدیمی دیہات ہے اسی کے نام پر بھی ضلع کا نام رکھا گیا لیکن بعد ازاں اسے نوری نصیر خان جو خان آف قلات تھے کے نام سے منسوب کرکے نصیرآباد رکھا گیا۔ضلع نصیرآباد کی آبادی 2017 کی نئی مردم شماری کے مطابق چار لاکھ نوے ہزارپانچ سو اٹھتیس نفوس پر مشتمل ہے۔ نصیرآبادکا رقبہ 3387 کلومیڑ ایریا پر مشتمل ہے نصیرآباد ضلع کا ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی ہی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے شہر کا نقشہ فیصل آباد کی طرز پر بنانے کا حکم دیا تھا۔

لیکن بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد یہ نہ فیصل آباد جیسا شہر بن پایا اور نہ ہی یہ حقیقی معنوں میں ایک بہتر شہر بن سکا،اسی وجہ سے ڈیرہ مراد جمالی شہر کم اور دیہات یا کچی آبادہ زیادہ لگتا ہے اور بھٹو شہید نے ڈیرہ مراد جمالی میں گھی مل لگانے کی منظوری بھی دی تھی جس کی چاردیواری سمیت کافی کام بھی ہوا تھا لیکن وہ بھی بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مکمل نہ ہوسکا۔ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کی بڑی آبادی کے حامل شہروں کوئٹہ،تربت خضدار،حب،چمن کے بعد چھٹابڑا شہر ہے جس کی آبادی 96ہزار591ہے۔ نصیرآباد میں چار بڑی اقوام براہوئی، عمرانی،جاموٹ اور کھوسہ قبائل کی اکثریت ہے۔

اور کچھ دیگر قبائل بھی ضلع میں آباد ہیں اور ان کا ہمیشہ اثرورسوخ بھی رہا ہے۔نصیرآباد میں عمرانی اور براہوئی قبائل ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں عمرانی قبیلے سے سردار فتح علی خان عمرانی،میر صادق عمرانی، بابو محمد امین عمرانی حالیہ ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری بی ڈے اے میر سکندر خان عمرانی مذکورہ بالا سیاسی قائدین مختلف پارٹیوں سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ براہوئی قبیلے سے میر عبدالغفور لہڑی،ان کے چھوٹے بھائی حاجی محمد خان لہڑی جوکہ دوسری مرتبہ بھی کامیاب ہو چکے ہیں اور اب وہ مشیر محنت و افرادی قوت ہیں۔

جاموٹ قومی موومنٹ کے میر عبدالماجد ابڑو، سادات فیملی سے تعلق رکھنے والے مرحوم سید ممتاز علی شاہ جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر نصیرآباد پر محترمہ ربابہ بلیدی صاحبہ جوکہ دوسری مرتبہ منتخب ہو چکی ہیں اور کشور احمد جتک، بھی سابقہ ادوار میں ایم پی اے رہ چکی ہیں جبکہ نصیرآباد سے ڈاکٹر رسول بخش لہڑی سینٹر بھی رہ چکے تھے۔ نصیرآباد کی سیاسی قائدین اور رہنماؤں کا صوبے کی سیاست میں ہمیشہ کلیدی اور اہم رول رہا ہے اور ہمہ وقت اقتدار میں شراکت داری کاشرف حاصل کرتے رہے ہیں۔ ٹیپل ڈیرہ یاڈیرہ مراد جمالی کو 1979 میں جب ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔

تو اس وقت ٹاؤن شپ کیلئے 5ہزار 5سو ایکٹر زمین ایک روپے کی عوض مقامی لوگوں سے خریدی گئی اور اس وقت سرکار نے زمینوں کو سرکای لینڈ ڈکلیئر کردیا اور زمین مالکان کو سرکاری معاوضہ نہیں دیا گیا سوائے چند ایک کے، لیکن سرکار نے ریونیو ریکارڈ میں شہر کی تمام اراضیات کو میونسپل ایریا قرار دیکر لوگوں کو مالکانہ حقوق کے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیئے۔

پانچ ہزار پانچ ایکٹرسو اراضی پر ضلعی انتظامیہ کی باہمی رضامندی سیاسی اثرو رسوخ زبردستی یاقبضہ مافیاز نے قبضے شروع کر دیئے اور کروڑوں روپے کی سرکاری زمینوں پردیکھتے ہی دیکھتے عمارتیں کھڑی ہوتی گئیں لیکن غریب کی بدقسمتی کہ وہ اپنی پرانی جگہ کی تعمیر سمیت مرمت کیلئے بھی ترستے رہتے ہیں۔ نصیرآباد میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے اور عوام کی حاکمیت کا نعرہ لگایا انہی طاقتوں نے سب سے زیادہ قبضے کئے اور بعد ازاں انہی قبضہ مافیاز نے سرکاری زمینوں پر قبضہ کے خلاف باتیں اور نعرے بھی لگائے۔

ڈیرہ مراد جمالی صوبے کا واحد اور اکلوتا شہر ہے جسے پچاس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال شہریوں کو بنیادی حقوق سمیت مالکانہ حقوق نہیں ملے ہیں۔ پی پی پی کے سابق صدر و سابق وزیر میر صادق عمرانی نے بھی شہرکی الاٹمنٹ کیلئے بہت تگ و دود کیا اور اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کرائی۔ ڈیرہ مراد شہر کیلئے الاٹمنٹ کرانے کا نوٹیفیکشن بھی جاری کروایا، ڈیرہ مراد جمالی میں ان کی کوششوں سے تین مرتبہ پالیسیاں بھی بنیں، کمیٹیاں بھی قائم ہوئیں اور مختلف وارڈز کے مختلف ریٹس بھی مقرر ہوئے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دورہ ڈیرہ مراد جمالی میں ڈاکٹر مالک بلوچ سے میر غفور لہڑی ہاؤس میں حاجی محمد خان لہڑی کی جانب سے شہر کو الاٹمنٹ اور مالکانہ حقوق کے مطالبہ پر شہریوں کوالاٹمنٹ کی ایک بار پھر خوشخبری کی نوید سنائی۔

اس بار بھی کمیٹی بنی شہر کے کمرشل ایریاز اور رہائشی ایریاز کیلئے الگ الگ قیمتوں کا تعین ہوا انتظامیہ کے ساتھ میٹینگیں بھی ہوئیں۔موجودہ ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر خان عمرانی نے بھی جام کمال خان کے دورہ نصیرآباد پر جو سپاسنامہ پیش کیا،اس میں سرفہرست ڈیرہ مراد جمالی کی الاٹمنٹ تھی،اس وقت جام کمال خان نے بھی شہریوں کو الاٹمنٹ کی خوشخبری سنائی اور ساتھ ہی ان الاٹمنٹ سے حاصل ہونے والی رقم کو ڈیرہ مراد جمالی شہر کی ترقی پرخرچ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ جام کمال خان کے اس اعلان سے پختہ امید پیدا ہوئی کہ اب کی بار جام کمال خان جو صاحب سنت وزیر اعلیٰ ہیں۔

وہ جو اعلان کرتے ہیں اس پر ضرور عمل درآمد کراتے ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اعلان اور احکامات کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا لیکن چندہ ماہ قبل جام کمال کے احکامات اور میر سکندر خان عمرانی کے جدوجہد کے روشنی میں شہر کی الاٹمنٹ کیلئے ایک بار پھر پالیسی سازوں نے پالیسی مرتب کرنے کا پلان بنایا، کئی میٹنگز بھی منعقد ہوئیں جن میں علاقائی ایم پی ایز نے شرکت کی اور ایک اہم میٹنگ نصیرآباد کمشنر آفیس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوئی جس میں وزیر ریونیو سلیم کھوسو سمیت نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے تمام ایم پی ایز نے شرکت کی۔

اور اس وقت گھریلو اور کمرشل ایریا کیلئے انتظامیہ نے جو ریٹس مقرر کیئے ان ہی ریٹس پر ڈیرہ مراد جمالی کے مقامی باشندے شاید قیامت تک نہ تو الاٹمنٹ کرا سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر یا دکان کے مالکانہ حقوق حاصل کر سکیں گے لیکن ان مہنگے ریٹس مقرر کرنے پر سیاسی و سماجی حلقوں کے ساتھ ساتھ کے نصیرآباد کے دونوں ایم پی ایز میر سکندر خان عمرانی حاجی محمد خان لہڑی سابق صوبائی وزیر میر عبدالغفور لہڑی نے بھی مہنگے ریٹس مقرر کرنے کی بھر پور مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ جام کمال خان سے مہنگے ریٹس مقرر کرنے کی بابت بھی بات چیت کی جائے گی۔

ہم عوامی نمائندے ہیں عوامی حقوق اور ان کے بنیادی حق کیلئے ہم ہر فورم پر اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے تاہم اس سلسلے میں کی جانے والی کسی بھی پیش رفت کے بارے میں تاحال معلومات نہیں۔ڈیرہ مراد جمالی کے عوام کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے بھی مہنگے ریٹس مقرر کرنے کی بہت مخالفت کی گئی۔ڈیرہ مراد جمالی شہر کی الاٹمنٹ کی پالیسیوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ڈیرہ مراد شہرکی الاٹمنٹ ”ہنوزدلی دوراست“کے مصداق ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی شہر کو مالکانہ حقوق اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جا رہا ہے۔

شہر کی الاٹمنٹ پالیسی میں سب سے بڑی رکاوٹ محکمہ ریونیو ہے اسی مخالفت کی وجہ سے ریونیو محکمہ کی معتبری ابھی تک چل رہی ہے اور پورے شہر میں ریونیو کا ہی سکہ چلتا ہے اگر شہریوں کو مالکانہ حقوق اور الاٹمنٹ کا حق دیا جاتا ہے تو تعمیرات اور گھروں کی معمولی مرمت کی مد میں پھر ان آفیسران کی مٹھی کون گرم کریگا اور ان ریونیو آفیسران کے ناز نخرے کس طرح پایہ تکمیل ہو سکیں گے۔ نصیرآباد کے ریونیو محکمہ اسی وجہ سے ہی سونے کی چڑیا ہے جہاں سرکاری زمینوں کاسودا سرکاری آفیسران کرتے ہیں اور قبضہ مافیاز سرکاری زمینوں کو شیر مادر کی طرح قبضہ کر رہے ہیں۔

انتظامیہ کی آنکھوں کے نیچے سرکاری زمینوں پر قبضہ ان کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔نصیرآباد میں سیاسی قیادت یا تو کمزور ہے یا پھر وہ شہر کی الاٹمنٹ کیلئے لفاظی سیاسی جدوجہد کرکے عوام کو خوش رکھنا چاہتی ہے یا پھر ان لیڈران کی تمام تر جدوجہد کو آفیسران نہیں مانتے اور ان آفیسران کی نئی نئی پالیسیوں کی بدولت مالکانہ حقوق کا عظیم منصوبہ تشنہ تکمیل بنا ہوا ہے۔کیا انتظامی آفیسران سیاسی قیادت سے زیادہ طاقتور ہیں؟ کیا آفیسران سیاسی قیادت کے احکامات ہوا میں اڑا دیتے ہیں؟

کیا سیاسی قیادت اسمبلی میں پاس ہونے والی قراردادوں پر عمل کراسکتے ہیں؟جب سیاسی قیادت کی ان بڑے اور عوامی منصوبوں کی راہ میں بیوروکریسی رکاوٹ ڈال کر ان کی عوامی ہمدردی کو ختم کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہی یا پھر یہ سب ان کی سیاسی لیڈران اور قائدین ہی کا کیا دھرا ہے؟اور ان ہی کی مرضی سے الاٹمنٹ کی پالیسیاں طوالت اختیار کرکے عوام کو انتظار کی بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں،کیا وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے ڈیرہ مراد جمالی کے شہریوں کو مفت مالکانہ حقوق دے سکیں گے؟کیا بحیثیت وزیر اعلیٰ ڈیرہ مراد جمالی کے عوام کے ساتھ کیا۔
ہوا وعدہ کو پوراکر سکیں گے؟ یا پھر ہر دور میں الاٹمنٹ کی نئی نئی پالیسیاں بنا کر ڈیرہ مراد جمالی کے عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا،کیا نصیرآباد کی کوئی سیاسی سماجی شخصیت شہر کی الاٹمنٹ پالیسی کو عدالت عالیہ میں چیلنج کر کے عوام کو ریلیف دینے کا نیک کام کر سکیں گے یا پھر اسی طرح کچھ نہ کرکے بھی ایک سیاسی نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ حاصل کیا جاتا رہے گا؟ کیا ڈیرہ مراد جمالی کے عوام باشعور ہو کر ان منتخب نمائندوں اور آفیسران کا محاسبہ کرسکیں گے؟ یہ آنے والا وقت اور مستقبل کا سیاسی پس منظر ہی طے کریگا۔