پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کش آج یکم مئی کا دن منارہے ہیں یہ سلسلہ 1886ء سے آج تک جاری ہے۔آجر اور اجیریا صنعت کار و مزدور دونوں کی حیثیت فیکٹری کے پہیہ کی مانند ہے کہ اگر وہ کسی بھی صورت برابر چلتے ہوئے اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائے تو معیشت رک جاتے ہیں اور بغیر معیشت کسی بھی ملک کا کاروبار زندگی رواں دواں نہیں رکھ سکتا حکومتیں صنعت کار کاروباری حضرات غرض یہ کہ ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ محنت کش کی محنت کو شامل کئے بغیر ان کے کارخانے کے چمنی سے دھواں نہیں نکل سکتا۔ کھیت سونا نہیں اگل سکتا۔
گاڑیاں سڑکوں پرچل نہیں سکتے۔کاروبار حیات کی رونقیں برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں اور نہ اکنامک کاریڈور بن سکتی ہے۔ سرمائے کو بڑھوتری صرف اور صرف اسی وقت مل سکتی ہیں۔جب اس میں محنت کا پسینہ شامل ہوگا۔یہ وہ حقیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔اس بنیاد ی حقیقت کو جاننے کے بعد اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک صحت مند جسم اور صحت مند دماغ کے بغیر کوئی محنت کش اعلیٰ پائے کی پیداوار نہیں دے سکتا۔ جب تک محنت کش ایک مطمئن زندگی نہیں گزارے گا وہ نئی نئی تخلیقات نہیں کرسکتا۔اس لئے لازم ہے کہ محنت کش کو کام، آرام اور تفریح کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
اسے تعلیم، علاج اور رہائش کے سہولیات حاصل ہوں۔ان بنیادی ضروریات کے فقدان کو 1886ء کو صنعت کار اور سرمایہ دار ختم کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ ان تضادات کے نتیجے میں 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں اس خونی واقعہ نے جنم لیا۔ جو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پوری دینا میں پھیل گئی۔اور آخر کار اس تحریک نے صنعت کاروں سرمایہ داروں اور حکمرانو ں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ انہیں ملازمت اور بنیاد ی حقوق و سہولیات کا قانونی تحفظ فراہم کردیں۔یوم مئی1886 ء میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والوں نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ان کے حقوق دلوانے میں جو اہم ترین کردار ادا کیا اور اس راہ میں جو قربانیاں دیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکیں گی۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد دنیا بدل گئی تھی سرمایہ داری نے آگے بڑھتے ہوئے سامراج کی جگہ لے لی،جس کے بعد سامراجی طاقتوں نے محکوم ممالک کا بھر پور استحصال کیا۔ ہندوستان میں آہستہ آہستہ انگریز سامرج قدم جماء رہا تھا۔ادھر سیاسی سطح پر دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی اس و قت رونما ہوئی۔جب دنیا کے عظیم فلاسفر کارل مارکس نے سرمایہ داری کا سائنسی تجزیہ کیا اور سامراجی نظام کو دنیا کے سامنے expose کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کیسے بدل سکتی ہیں مارکس کے تجزیے کے مطابق دنیا میں پرولتاریہ کی قیادت میں محکوم طبقات سے دنیا میں تبدیل آسکتی ہے اور یہ استحصالی نظام بدلا جاسکتا ہے،اس سوچ کے تحت کارل مارکس کے زندگی میں فرانس میں پرولتاریہ کی سربراہی میں انقلاب برپا ہوا۔
مارکس کے تجزیے کے وجہ سے ہی مارکسزم ایک سائنسی نظریاتی سوچ وفکر کے طور پر پوری دنیا میں متعارف ہوا۔جس کے تحت مختلف انقلابیوں نے اپنے اپنے ملک کے سامراجی نظام کو بدلنے کی کوشش کی۔ہندوستان میں تمام مذاہب و مکاتب فکر کے لوگوں نے انگریزی سامراج کے خلاف مشترکہ جدوجہدکا آغاز کیا تھا۔
ادھر ہندوستا ن کے آزادی چاہنے والے ترقی پسند لوگوں کی انقلابی ممالک سے روابط تھے۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر تعلیم یافتہ طالب علم،پروفیسر،انجینئر،وکلاء، نے ہندوستان میں ترقی پسند نظریات اور مارکسزم کے حامی افراد نے ایک انقلابی پارٹی تشکیل دی مگر وہ آزادانہ رویہ اختیار نہ کر پائی کیونکہ انگریز سامراج نے انتہائی چالاکی اور مکاری سے ہندوستان میں اپنے وفادار لوگوں کے ذریعے اصلاح پسند تحریک شروع کرادی جس کی وجہ سے چین سوویت یونین، ویتنام اور کوریا جیسے حالات ہندوستان میں پیداء نہ ہوسکے۔ ان مجموعی حالات میں انگریز و امریکی سامراج کو یہ فکر تھی کہ کہیں ہندوستان بھی آزادی کی مسلح ڈگر پر نہ چل نکلے۔
اسی لئے ان سامراجی طاقتوں نے ہندوستان میں آزادی کی جنگ کو اصلا ح پسند ی کے اندازمیں چلانے کے لئے بے دریغ وسائل استعمال کیا اور نئی حکمت عملی اپنائی بعد ازاں انگریز سامراج نے ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہندومسلم کے درمیان نفرتیں پیداء کئے تنازعات کھڑے کئے پھر ہندوستان میں ہندو مسلم کش فسادات شروع ہوئیں۔ہندوستان کے دونوں بڑی قومیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئیں اور اس درمیان ہندو مسلم کش فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔
ان حالات میں امریکی سامراج کے مرضی و منشاں سے دنیا کے نقشے پردوملکوں کامزید اضافہ ہوا۔اور دونوں ممالک پر شروع ہی دن سے امریکی سامراج غالب رہاجوکہ آج تک ان دونوں ممالک کے لاکھوں بے گناہ معصوم عوام اپنے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے۔دونوں ملکوں کے ڈیڑہ ارب انسان مہنگائی بیروزگاری کے سبب بدترین معاشی بدحالی کی زندگی گزار رہی ہیں دونوں ممالک کے 50%سے زائد غریب عوام دووقت کے روٹی کے محتاج ہے اور اسی طرح 30%غریب محنت کش عوام غربت کے سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
اکیسویں صدی کے موجودہ جدید سائنسی دور میں دنوں ملکوں کے غریب عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔آج بھی ان دونوں ملکوں میں امریکی سامراجی حکمرانوں کے براہ راست مداخلت جاری و ساری ہے حتیٰ کہ ان سامراجی حکمرانوں کے احکامات کے روشنی میں حکومتیں بنتے اور بدلتے ہیں۔
ملک میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ویگر مالیاتی اداروں کی ایماء پر منافع بخش قومی اداروں کو نام نہاد نجکاری پالیسی کے تحت فروخت کیا جارہا ہے بین الاقومی سامراجی حکمرانوں کے اجازت کے بغیر ہمارے ملک کی حکمران کسی بھی ملک سے عوام کے ترقی وخوشحالی ا ور عوامی مفادات پر براہ راست معاہدات نہیں کرسکتے۔ ملک میں دن بہ دن مہنگائی بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔روزانہ پیٹرول ڈیزل اور اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے عوام کے تعلیم روزگار اور ضروری مسائل کے کوئی پالیسی وضع نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے محنت کش معاشی مشکلات بھوک افلاس و انتہائی تنگ دستی میں زندگی گزارنے پر مجبورہے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ ہم ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ نام نہاد نجکاری پالیسی کو فوری بندش ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ امریکی سامراج کے تابع ملک کے حکمران سول و فوجی بیوروکریسی کے ہاتھوں محنت کشوں کا معاشی قتل عام اور سماجی نابرابری کے خاتمہ اور غریب محنت کش عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے آج ہم یوم مئی کے دن کے مناسبت سے دنیا کے مزدوروں، کسانوں، اورطالبعلم تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ موجودہ سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے تمام تر عوام و مزدور دشمن پالیسیوں و اقدامات کے خلاف متحد و منظم ہوکر عملی جدوجہد میں اپنا شعوری کردار ادا کریں۔