آج کے دور میں بہت ہی کم مزدوں کو پتہ ہوگا یکم مئی مزدورں کا دن ہے۔کیونکہ مزدور آج کے دن بھی اپنی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔دن تو انکا ہے لیکن افسوس اپنی دن کو منانے سے بھی محروم ہیں اس سال تو رہی سہی کسر کورونا وائریس نے پوری کردی، نہیں تو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات اس دن کی مناسبت سے رکھ لی جاتی جن سے مزدوروں کو کوسوں دور رکھا جاتا۔
ہمارے ہاں مختلف دن منائے جاتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے تحفے اور تحائف بھی دیئے جاتے ہیں جیسے ہم برتھ ڈے پہ جس کی سالگرہ ہوتی اسے تحائف وغیرہ دیتے ہیں __ دعاؤں سے نوازتے ہیں ‘__ پورا دن ایک باقاعدہ پلان تیار کیا جاتا ہے گھومنے پھرنے کا’ کام کو اس دن ہاتھ بھی نہیں لگانا وغیرہ__ تو مزدور ڈے پہ مزدور کو چھٹی کیوں نہیں ملتی؟ کیوں اس کے لیے تحفے تحائف نہیں لیے جاتے’__ کیوں اس کو دعائیں نہیں دی جاتیں ‘ لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے اس دن ان کا کام اور بڑھا دیا جاتا ہے؟ کیونکہ وہ مزدور ہے، کیا کچھ غلط کہا میں نے؟ جی نہیں بالکل ایسا ہی سوچا جاتا ہے’__
باتیں سنا سنا کر، یا پھر ایسا بھی ہوتا کہ تجھے جیسا کہا تھا ‘ ویسا کام ہی نہیں کیا’جیسے ہم نے بتایا تھا تو پھر مزدوری کس بات کی ہے تو مزدور بھی انسان ہے وہ بھی دل رکھتا ہے، کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا’__ تو مزدور کو چھوٹا اور حقیر کیوں سمجھا جائے؟ کسی سے بات کرو یا سمجھانے کی کوشش بھی کرو، کیا آپ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہے، آپ ہی سے تو معاشرہ ہے، افراد سے جب معاشرہ جنم لیتا ہے تو’__ پھر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ’ ہر ایک نے اپنے حصہ کا دیا خود جلانا ہے’__ کیوں ہم اپنی غلطیاں دوسروں پہ تھوپتے ہیں؟ کیوں ہم اپنا موازنہ نہیں کرتے؟ اپنی سوچ کو نہیں بدلتے؟ یہ جو کہتے ہیں تبدیلی آئے گی، تبدیلی آئے گی، مگر جانے کب، تو ذہن سے یہ خیال نکال دیں کہ تبدیلی کوئی تحفہ نہیں جو آپ کو ایک دم سے بھیجا جائے گا’__ جس دن اپنی سوچ بدلیں گے’__
کسی کو حقیر جاننا چھوڑ دیں گے اسی دن تبدیلی پروان چڑھے گی’__ اس دن کوئی کام حقیر نہیں لگے گا’__ صرف انسان بن کررہیں ‘__ تاکہ خوشحال و ترقی پذیر معاشرہ جنم لے سکے’__ اور یہ سب صرف ایک دن کی سوچ اورایک دن کے ولولے سے نہیں ہوگا’اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ’ ہم نے اپنوں کی خوشیاں دینی ہیں ‘ آج کورونا وائرس کی وجہ سے کہیں مزدور پیشہ گھرانوں میں فاقہ کشی ہورہی ہے کیا ہم نے کوشش کی ہے یہ جانے کی کوئی بھوکا پیاسا نہ سوئے’ تاکہ کسی کے بچے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نہ ترسیں،خود کشی اور فاقہ کشی کا خاتمہ ہوسکے’ ہر دن ہر پل سکون ‘ روشنی کی کرن تب ہی چمکے گی’ جب ہمارا ضمیر جاگے گا’__
کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں تو ہم کیوں دیں یہ فوقیت؟ آئیے اپنے آپ کو بدلیں تاکہ ہمارے اپنے خوش رہ سکیں امیری غریبی کا فرق مٹا دیں ‘ دلوں میں نفرتیں،حسد، بغض، کینہ رکھ کر کیا کریں گے جب زندگی ہی نہ رہی تو’ اسی لیے اپنی زندگی کو بھی آسان بنائیں اور دوسروں کی زندگیوں کو بھی آسان رہنے دیں پہلے خود کو اپنے نفس سے آزادی دلوائیں جو کسی اور کو آزاد وخوشحال نہیں دیکھنے دیتا’ جب اپنے ضمیر کو ٹٹولیں گے تو یقیناً آپ مطمئن ہوجائیں گے آپ اپنے اندراور باہر دونوں میں تبدیلی دیکھیں گے۔
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے