کورونا وائرس کے دو ماہ سے زائد لاک ڈاون نے جہاں کاروبار زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں مزدور تاجر پیشہ پرائیویٹ سکولزمیں کام کرنے والے اساتذہ مزدور طبقات,حجام میکینک ہارڈوئیر ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرنے والے مزدور، کولڈڈرنک کاسمیٹک سمیت دیگر روزانہ اجرت کرنے والے شدید متاثر ہونے والے افراد کورونا سے زیادہ بھوک سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ نان فقہ کے ہی محتاج ہو گئے ہیں۔
متاثرہ طبقہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تاہم اللہ کے فضل سے نصیرآباد اس خطرناک کورونا وائرس کے وباء سے تاحال محفوظ رہا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی محفوظ رہے گا حکومت بلوچستان نے لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افراد اور متاثرین کی مالی امداد اور راشن کی فراہمی کیلئے دیگر اضلاع کی طرح نصیرآباد کیلئے بھی تین کروڑ روپے جاری کئے جس پر ڈپٹی کمشنر نصیرآباد حافظ قاسم کاکڑ نے متاثرین کو راشن دینے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں گزشتہ دو دنوں سے راشن کی تقسیم رات کے وقت شروع کیا گیا ہے جو کہ مسلسل جاری ہے جوکہ احسن اقدام ہے پہلے فرصت میں سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اور انجمن تاجروں کے صدر و دیگر تاجر برادری کے اظہار تشکر کے کمنٹس نظر سے گزرے کہ تاجروں کو ڈپٹی کمشنر نے راشن دیکر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
مجھ جیسا نا چیز سب سے زیادہ حیران ہوا کہ لاکھوں روپے کے کاروبار کرنے والے تاجران ان مزدور طبقات جو تین سے پانچ ہزارمعمولی تنخواہ پر ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے پرائیویٹ اساتذہ ریڑھی بان,ہوٹل پر کام کرنے والے مزدور اور مختلف گیراجوں پر کام کرنے والے معصوم بچوں سے بھی زیادہ حقدار ہیں اور انتظامیہ نے پہلی فرصت میں ان متاثرہ تاجروں میں راشن تقسیم کرکے تاجر برادری کی خوشنودی تو حاصل کرنے میں یقینا کامیاب ہو چکی ہو گی اور ڈیرہ مراد جمالی کے یہ تاجر بھی راشن کی بوری لیکر بے انتہا خوش بھی ہو چکے ہونگے جو کہ وہ شاہد سب سے زیادہ مستحق تھے راشن کی تقسیم پر مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ کسی تاجر سے مجھے کوئی بغض ہے تاہم ایک میرٹ لسٹ مرتب کیا جاتا اور اس کے معیار بھی بنائے جاتے اور ساتھ ہی ترجیحات مقرر کیئے جاتے اور ان میں پہلی ترجیح زیادہ مستحق کو دیا جاتا۔
مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں معمولی اعزازیہ پر کام کرنے والے سفید پوش نوجوان اساتذہ جو ایک بہترین اور نیک کام کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور قلیل تنخواہ میں نصیرآباد کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے روشناس کرانے اور علم کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار بھی ادا کر رہے ہیں ان کو تاحال حکومت نے راشن مستحقین کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا ہے ان کے بقول پرائیویٹ سکول بڑے بڑے تاجروں سے بھی زیادہ بزنس مین ہیں کیا کوئی دوست رہنمائی کر سکتا ہے کہ تاجر اور پرائیویٹ سکولز اساتذہ میں کوئی فرق ہے کیا نصیرآباد میں قائم پرائیویٹ سکولز اساتذہ کو لاکھوں میں تنخواہ دیتے ہیں کیا۔
نصیرآباد کے پرائیویٹ اسکولوں کا مقابلہ کراچی اسلام آباد لاہور راولپنڈی فیصل آباد سمیت دیگر بڑے بڑے سکولوں سے کیا جا سکتا ہے جہاں تک میرے علم میں ہے کہ نصیرآباد میں پرائیویٹ سکول تین سو سے لیکر 1200 سو تک میٹرک تک تعلیم دینے کی فیس وصول کر رہے ہیں۔
نصیرآباد میں پرائیویٹ سکولوں کا بھی تعلیمی فروغ میں اہم کردار ہے اور شاید ساٹھ سے زائد چھوٹے بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے نصیرآباد کے غریب اور تعلیم سے ذوق رکھنے والے بچوں کو زیور علم سے روشناس کرانے میں مصروف ہیں تاہم باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان کے دیگر اضلاع سمیت وفاق نے بھی پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والے سفید پوش اساتذہ کو راشن اور لاک ڈاؤن میں متاثرین کی فہرست میں اولیت دی ہے۔
لیکن نصیرآباد میں معمولی فیسز وصول کرنے والے تعلیمی میدان میں چیرٹی کے خدمات سرانجام دینے والے ان ہی سکولوں کے اساتذہ تاحال انتظامیہ کے Good بک میں نہیں ہیں اور ابھی تک پرائیویٹ اساتذہ کو راشن فراہم کرنے کی انتظامیہ کو توفیق بھی نہیں ہوئی ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک حکم نامے میں پانچ ہزار سے کم فیس وصول کرنے والے پرائیویٹ اداروں کو چیرٹی کے ادارے قراد دیا ہے لیکن بلوچستان میں سوائے کوئٹہ کے چند سکولوں کے علاوہ کسی بھی جگہ یا ضلع میں پانچ ہزار تک کوئی بھی فیس وصول کرنے والے سکول یا ادارہ نہیں بلوچستان بھر میں 27 سو کے قریب تعلیمی ادارے صوبے میں نو پرافٹ اور نو لاس کی بنیاد پر معیاری تعلیم کے فروغ کیلئے حکومت کا ہاتھ بٹھا رہے ہیں لیکن پرائیویٹ سکولز واحد شعبہ ہے جیسے ہر دور میں نظرا انداز کیا جاتا رہا ہے۔
پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ خالصتاً ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں اور وہ اپنی اور بچوں کی علمی استعدار کار میں اضافہ کرنے بلوچستان کی تعلیمی میدان میں 45 فیصد حکومت کے تعلیمی بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن جو کہ ان پرائیویٹ اداروں کے ساتھ مالی مدد اور تعاون کے باعث بنایا گیا ہے وہ نوے کی دہائی سے ہی تعلیمی اداروں کی مالی اعانت کر رہی تھی 2014 سے پرائیویٹ سکولز اور بی ای ایف کی جانب سے تعلیمی ایکٹ لانے پر اختلافات ہوئے اور بات عدالتوں تک پہنچ گئی جس کے باعث بی ای ایف نے گرانٹ ان ایڈ کی مدد میں تعاون کا سلسلہ روک دیا اب باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ارب کے لاک بھگ رقم جوکہ گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ہے وہ تاحال سکولوں کو جاری نہیں کیئے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور وزیر تعلیم بلوچستان سردار یار محمد رند صوبے بھر کے پرائیویٹ سکولوں کے مسائل اور لاک ڈاؤن کے دوران دوماہ سے زائد عرصہ بندش کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان ایجوکیشن فاونڈیشن کو حکم جاری کریں کہ وہ بلوچستان کے پرائیویٹ سکولوں کو فوری طور پر گرانٹ ان ایڈ جاری کریں تاکہ پرائیویٹ سکولز اپنے سکول بلڈنگ کے کرایہ جات اساتذہ کرام کے تنخواہ جات سمیت اپنے یوٹیلٹیز بل ودیگر اخراجات کی ادائیگی کے قابل ہوں اور ساتھ ہی وزیراعلی ٰبلوچستان صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو حکم جاری کرے کہ صوبے بھر میں قلیل تنخواہ پر کام کرنے والے پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والے سفید پوش اساتذہ کی بھی مدد اور ان کو راشن کی فراہمی یقینی بنائی جائے یہ سفید پوش طبقہ تاجروں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں لیکن انتظامیہ کی حکمت عملی مجھ جیسے کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
کمشنر نصیرآباد کو بھی ان محکوم اور متاثرہ طبقات کے بارے میں میں خود گوش گزار کرا چکا ہوں اورانہوں نے بھی اس سلسلے میں پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والوں کو ترجیحی بنیاد پر شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی اب وقت ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ,خدمتگاروں, چوکیداروں اور دیگر ملازمین کو بھی راشن کی فراہمی فورا شروع کی جائے تاکہ ان کی بھی حوصلہ افزائی ہو.