|

وقتِ اشاعت :   May 5 – 2020

بلوچستان میں پولیس اور لیویز عوام کے تحفظ اور علاقائی امن وامان کی بہتری کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں نصیرآباد ڈویژن میں پولیس کے جوانوں کی عظیم قربانیاں ہیں اور صرف نصیرآباد میں 70 سے زائد جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے ان میں ڈی ایس پی,انسپکٹر رینک سمیت دیگر جوان بھی شہید ہوئے ہیں جبکہ متعدد آفیسران مختلف حادثات میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن میں پانچ اضلاع نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور مکمل پولیس ایریا ہیں جبکہ جھل مگسی اور کچھی میں پولیس کے ساتھ ساتھ لیویز فورس بھی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

بلوچستان کی لیویز فورس مکمل طور پر قبائلی فورس ہے اور یہ علاقائی نمائندوں اور طاقتور لوگوں کے ہی حکم کو بجا لانے میں ہمہ وقت سرگرم رہی ہے جبکہ پولیس پہلے عوام کی فورس کہلاتی تھی اور وہ شروع میں عوامی شکایات پر فوراً ایکشن لیتی تھی رفتہ رفتہ پولیس پر سیاست حاوی ہوتی گئی جہاں میرٹ کے بجائے سفارش کلچر ڈیرے ڈالنے لگا اور پولیس پر سیاست کا اثر زیادہ ہو نے لگا بلکہ پولیس نے بھی سیاسی بننا شروع کیا۔ پولیس کے اس روش کو عام عوام نہیں جانتی تھی یا بہت کم لوگ پولیس کے سیاسی ہونے سے باخبر تھے۔

گزشتہ دنوں اوستہ محمد میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر جان محمد جمالی کے فرزند اور ان کے سیاسی جانشین یا یوں کہئے اوستہ محمد کے سیاسی ولی عہد میر فاروق خان جمالی کی ایس ایچ او سٹی مقبول جمالی کے ساتھ ایک آڈیو کال لیک ہو کرسوشل میڈیا کی زینت بنی جس پر پہلی مرتبہ ایک ایس ایچ او کو حکم اور اس کی تذلیل کی جارہی تھی جبکہ ایس ایچ او میر فاروق خان کے پاؤں پڑنے اور اس کو مسئلہ سمجھانے گھر آنے کی درخواستیں کر رہا تھا۔ مجھے پہلی مرتبہ خان بہادر جیسے ایس ایچ او پر ترس آ رہا تھا کہ ایک طاقتور پولیس آفیسر کسی سیاست دان کے طاقتورفرزند کی منت سماجت کر رہا تھا اور کیوں نہ کرتا جو ان کی سفارش پر ہی تھانیدار بنتا ہو۔

وہ کیونکر ان سیاسی اشرافیہ کی مخالفت کر سکتا ہے تاہم اس مسئلے کو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے بہترین انداز میں اجاگر کیا اور اس آڈیو کال نے پولیس اور مذکورہ سیاسی رہنماء کا کچا چٹھا کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا اور عوام کو اندازہ ہوا کہ یہ سیاسی مسیحا دراصل عوام کی خوشحالی، ترقی اور علاقائی بہتری کے بجائے اپنے مخالفین کو سیاسی طور پر زیرو کرنے کیلئے اپنی سفارش پر لانے والے پولیس اہلکاروں کی ہمہ وقت تذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو مخالفین کے خلاف بھی بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ کے بعد اب سب سمجھ چکے ہیں کہ یقینا پولیس مکمل طور پر سیاسی ہو چکی ہے۔

اس کی مین وجہ ڈی آئی جی سے لیکر ایک محرر کی تقرری تک سیاسی نمائندوں کی سفارش پر ہوتی ہے اور جب اس طرح ہوں تو کیونکر پولیس انصاف کے تقاضے پورے کریگی۔ بلوچستان بلخصوص نصیرآباد ڈویژن میں پولیس کو سیاست دان اس طرح استعمال کرکے سیاسی میدان میں کامیابیاں سمٹ رہے ہیں یقینا منتخب نمائندوں کی سیاسی مخالفت کرنے پر پولیس فوراً حرکت میں آتی ہے مختلف ناجائز جھوٹے آیف آئی آر قتل، منشیات،اغوا، چوری، سہولت کاری و دیگر من پسند مقدمات چاک کرکے سیاسی حریفوں کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

اور پھر وہ اپنے حریف پر احسان جتانے اور ان سے ہمدردی بھی کرنے کیلئے فوراً پہنچ جاتے ہیں۔ نصیرآباد میں عوام پر چند خاندان سیاسی طور پر ہمیشہ ہی مسلط رہے ہیں ان کی اہم وجہ ہی انہیں ایسے پولیس آفیسران کی مکمل مدد کی وجہ سے شاید ممکن ہوتی رہی ہے نصیرآباد ڈویژن میں کوئی بھی پولیس آفیسر سیاسی نمائندوں کی سفارش کے بغیر چند ماہ بھی نہیں چل سکتا اور نہ ہی وہ کوئی بھی اقدام میرٹ پر کر سکتا ہے۔ کیا بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی پولیس کا کردار ہماری پولیس کی طرح سیاسی ہے میرے خیال میں دیگر صوبوں کی پولیس میں اس کے اثرات شاید کم ہوں لیکن بلوچستان میں اس کے اثرات زیادہ ہوتے جارہے ہیں۔

جب تک متعلقہ تھانیدار اور ایس ایچ اوز ہمارے نمائندوں کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھ کر بجا لاتے رہیں گے سرکار سائیں کے حکم پر کیس کی میرٹ اور اس کے نقصانات کے بجائے سیاسی آقا کی خوشنودی حاصل کرنے میں جو راحت محسوس کریگی لیکن شاید اسے میرٹ پر کیس بنا کر اور عوام کو انصاف میسر کرنے میں وہ سکون نہ ملے۔
سابقہ ادوار میں بھی نصیرآباد میں چند نامی گرامی اور میرٹ پر فیصلے کرنے والے پولیس آفیسران تعینات رہے ہیں جنہوں نے میرٹ کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پولیس کا بھی مورال بلند رکھا اور ان کے دور میں پولیس کی جانب سے بہت کم ناانصافی کی مثالیں ملتی ہیں۔

اور کوئی بھی آفیسر عوام کے ساتھ ناانصافی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب نصیرآباد کے اربن ایریا یعنی ڈیرہ مراد جمالی کو پولیس ایریا بنایا گیا چند سال بعد نصیرآباد کے ایس ایس پی خیر محمد جمالی بن گئے انہوں نے اپنے دروازے عوام کیلئے کھول دیئے اور عوام کی کسی بھی درخواست پر فورا ًایکشن لیا جاتا اور کسی پولیس آفیسر کی شکایت ہوتی تو اس کے خلاف کاروائی بھی ہوتی تھی کسی کو سفارش کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا اس کے بعد دیگر نامور پولیس آفیسران میں سید کلیم امام،عابد نوتکانی،نظام شاہد درانی، غلام محمد ڈوگر، ظہور بابر آفریدی سمیت بہت سے دیگر آفیسران نے بھی فرائض احسن طریقے سے سرانجام دیئے۔

اور ان کے دور میں کسی بھی پولیس آفیسر کوسفارشی ایس ایچ او نہیں لگایا جاتا تھا تمام فیصلے میرٹ پر ہوتے تھے عوامی شکایات پر فورا ًایکشن لیا جاتا تھا لیکن اب حالات مختلف ہیں یااْس دور میں ان مسائل یا حکمت عملی کی ان سیاسی نمائندوں کو علم نہیں تھا یااس وقت انتقامی سیاست نہیں کی جاتی تھی یا پھر اس وقت سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا جس کے باعث لوگوں کو آگاہی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن اب ہر ضلع میں ایس ایچ او نہ تو میرٹ پر لگائے جاتے ہیں اور نہ ہی سینارٹی پر مقرر کیئے جاتے ہیں ایس ایچ اوز سیاسی اکابرین کی مرتب کردہ لسٹ اور حکم کے تحت تعینات ہوتے ہیں۔

جب ایس ایچ اوز سفارش پر تھانوں میں تعینات ہونگے تو ان کی مجال کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کی حکم عدولی کریں یا ان کے کسی اشارے کے بغیر کوئی قدم اٹھائیں۔ نصیرآباد سمیت دوسرے اضلاع میں ایسے درد ناک واقعات بھی ہوئے ہیں جن کو سیاسی سفارش نہ ہونے کے باعث ان کے قتل جیسے بڑے بڑے کیسز کمزور کرکے ان ملزمان کو قانونی ریلیف فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ نصیرآباد ڈویژن میں سیاسی انتقام کیلئے واحد اور موثر ہتھیار ہی پولیس کے ذریعے ہی کرائی جاتی ہے جس سے مخالفین کے خلاف متعلقہ آفیسر کو چاہے جس طرح کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم ملے گاسیاسی مخالف یا حکم عدولی کرنے والے پر ناجائز مقدمے ضرور بنیں گے۔

جبکہ متعلقہ شخص بلوچی صفائیاں دینے تک کہہ کر راضی نامہ کرانے اور بلوچی میڑھ بھیجنے تک بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک سیاسی مخالفین مکمل سرنڈر نہ کریں۔ بلوچستان میں اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے۔ جہاں انصاف کے تقاضے پورے کیئے جائیں جہاں عام اور خاص کو ایک ہی نظر سے دیکھا اور سنا جائے اور ان کی ہرممکن داد رسی کی جائے۔کیا موجودہ آئی جی اس طرح صوبے میں میرٹ کو برقرار اور سفارش و سیاسی کلچر کا خاتمہ کر سکتے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ آئی جی صاحب اس طرح کا بڑا اقدام اٹھا سکتے ہیں دیگر صوبوں کے آئی جیز اپنے پولیس میں اصلاحات کرتے ہیں۔

ان ریفارمز کی صورت میں پولیس کا مورال بلند ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی پولیس کی ساکھ بحال ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے موجودہ حالات میں بھی ایک متحرک اور ایماندار آئی جی پولیس کو تعینات کیا جائے اور ملک میں نیک نام آفیسران کی کوئی کمی نہیں تاکہ بلوچستان کی پولیس کو سیاست سے پاک کرے اور کوئی بھی آفیسر ایم پی ایز وزراء کے ایماء پر تعینات نہ ہوں، ضلع میں تمام تھانوں میں میرٹ پر تھانیداروں کا انتخاب کیا جائے اور ان تھانیداروں پر بھی موثر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے تاکہ عوام کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور اگر کوئی آفیسر عوامی مسائل میں رکاوٹ بنے یا انصاف اور میرٹ کے خلاف کچھ بھی کرے۔

یا سیاست دانوں کے ایماء پر جھوٹے مقدمہ درج کرے تو ایسے تھانیداروں کے خلاف سخت محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ کوئی تھانیدار اس طرح کا رویہ عوام کے ساتھ نہ رکھے اور ساتھ ہی پولیس سے رشوت کے خاتمے کیلئے بھی خاطر خواہ اقدامات کرائے جائیں، بہت سے بیگناہ رشوت کے باعث گناہ گار اور بہت سے قاتل رشوت کے عیوض معصوم بن کر باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ تفتیش کے نظام میں بھی بہتری لائی جائے جب تک معاشرے میں ایک جیسا انصاف نہ ہوگا تب تک ہمارا معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کریگا اور قارئین آپ سب کے علم میں ہے کہ معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرتا یا کامیاب نہیں ہو سکتا۔

جب تک وہاں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا تے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان بھر کے پولیس نظام میں جدت اور اصلاحات لائی جائیں اور ان کی اس طرح ٹریننگ کی جائے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہو کر امربالمعروف و نہی المنکر کو اپنا سلوگن اپنا کر مظلوم کا ساتھی اور ظالم کے خلاف ہو کر مظلوم طبقات کو انصاف فراہم کریں تاکہ عوام حقیقی معنوں میں ان محافظوں کے باعث عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں نوٹ: اور ستم بالائے ستم ڈی آئی جی پولیس نے اپنے پولیس اہلکار کو سیاسی دباؤ سے تحفظ دینے کے بجائے اسی ایس ایچ او مقبول جمالی کا نہ صرف تبادلہ کر دیا بلکہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے مقبول جمالی کو ضلع بدر بھی کر دیا اور مزید یہ کہ 3 سال کیلئے کسی بھی انتظامی عہدے پر تعیناتی پر پابندی عائد کر دی ہے۔