|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2020

بلوچستان کا رقبہ ملک کی 47 فیصد پر مشتمل ہے بدقسمتی سے بلوچستان ان 74سالوں میں وہ ترقی کی منازل حاصل نہ کر سکا جو کرنا چاہئے تھا اس کا ذمہ دار وفاق سمیت ہمارے ارباب اختیار منتخب نمائندے بھی ہیں۔ بلوچستان میں 18 ویں ترمیم سے پہلے ہمارا صوبہ ہر وقت اوور ڈرافٹ پر ہی چلتا تھا اور تنخواہ تک کیلئے وفاق کی منت سماجت کرتا تھا۔ 18 ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کو جو ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں وہ شاید ملک کے دیگر صوبوں کے ایم پی ایز کو نہ ملتا ہو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ہر ایم پی ایے کو چالیس سے پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملتے ہیں جبکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی اس کے علاوہ ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی نہ تو پسماندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور نہ ہی صوبے کے عوام کی محرومیاں ختم ہو رہی ہیں۔

بلوچستان ملک کا بدقسمت صوبہ ہے جہاں تعلیمی شرح دیگر صوبوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے صوبے میں گھوسٹ سکول اور گھوسٹ ملازمین کا رونا ہر دور میں رویا جاتا رہا ہے۔بلوچستان جہاں تعلیمی نظام میں انتہائی پسماندہ سطح پر ہے وہاں صحت سمیت دیگر تمام شعبوں میں بھی پستی عدم ترقی اور زوال کا عنصر نمایاں ہے، ملک میں کورونا وائرس کی خطرناک وبا ء کے باعث بلوچستان کے وزیر تعلیم نے بلوچستان میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر ایشو پر فیصلہ دیر سے لیتا ہے یا یوں کہئے کہ دیگر صوبوں کے بعد ہی کسی بھی ایشو پر فیصلہ کرتی ہے۔

لیکن کورونا وائرس کے باعث بلوچستان نے صوبے کے تعلیمی اداروں سرکاری و پرائیویٹ سمیت تمام دینی مدارس کو بند کرکے یقینا دیگر صوبوں پر سبقت لے گیا۔جہاں تعلیمی ادارے بند کرکے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کا اعلان کیا گیا،وہاں بچے اسکولوں کی بندش کے باعث گھروں کے بجائے گلیوں، بازاروں، کھیل کے میدانوں میں نظر آتے رہے۔ ان معصوم بچوں نے کورونا وائرس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی زندگی اور سکولوں کی بندش کو انجوائے کرتے رہے، تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش جوکہ 27 فروری سے لیکر تاحال جاری ہے جوکہ ڈھائی ماہ بنتے ہیں اس سے بلوچستان کا تعلیمی نظام مزید پستی کی جانب گامزن ہو چکا ہے اور صوبے کی رہی سہی تعلیمی نظام اپنے تباہی کے انتہا کو چھو رہا ہے۔

جبکہ اب بلوچستان کے وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ بلوچستان میں اب تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث صوبہ بھر کے تعلیمی ادارے بچوں کو آن لائن تعلیم دینا شروع کریں۔آن لائن تعلیم اچھا عمل ہے یقینا اس سے تعلیم بہتر ہو سکتا ہے لیکن کیا بلوچستان کے 32 اضلاع میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہے، کیا کوہلو،ڈیرہ بگٹی،جھل مگسی، آواران،کچھی،واشک،پنجگور،نوشکی، خاران ماشکیل،تفتان، چمن، قلعہ عبداللہ ہرنائی، بارکھان، موسی خیل،دکی سمیت دیگر پسماندہ اور دور دراز اضلاع میں انڑنیٹ کی سہولت موجود ہے،کیا بلوچستان کے کم لکھے پڑھے لوگ انٹرنیٹ سے واقفیت رکھتے ہیں۔

کیا بلوچستان میں اس سے قبل اس طرح کا انتظام یا انصرام کا کوئی تجربہ کیا جا چکا ہے کیا بلوچستان کو یورپ اور پیرس سمجھنے والے حکمرانوں نے صوبے میں انٹرنیٹ کی سہولت عوام کو میسر کر چکے ہیں، کیا ہمارا نظام تعلیم آن لائن تعلیم کا متحمل ہو سکتا ہے،کیا ہم نے بلوچستان کے آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں اساتذہ کو ٹرینڈ کیا ہے-کیا سہولیات کی عدم موجودگی میں اساتذہ کرام بچوں کو آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے ذریعے زیور تعلیم سے روشناس کرا سکیں گے کیا کبھی آن لائن نظام کا طریقہ کار وضع کرکے سکولوں میں اساتذہ کی سوفیصد حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیے جا چکے ہیں۔

یا پھر یونیسف کی طرح ایک بار پھر خانہ پوری کرکے فنڈز کو ضایع کرکے بلوچستان کے تعلیم کا مزید جنازہ نکالنا مقصود ہے۔ اس سے قبل بھی یونیسف نے بلوچستان میں اساتذہ کی سو فیصد حاضری یقینی بنانے کیلئے آن لائن سسٹم آر ٹی ایس ایم کا منصوبہ بلوچستان کے متعدد اضلاع میں شروع کیاتھا جو تاحال چل رہا ہے جس کی سب سے پہلے اساتذہ یونین نے مخالفت کی اور اس کے بعد اس نظام کا کیا حشر ہوا، وہ باخبر لوگوں کو معلوم ہے سوائے چند غیر اساتذہ کے جن کے کچھ دنوں کی غیر حاضری کے سوا اس نظام سے کچھ فوائد حاصل نہیں ہوئے اور یہ آن لائن مانیٹرنگ نظام بھی صوبے میں تعلیمی معیار کو بہتر کرنے میں معاون تو ثابت نہ ہو سکا۔

اور نہ ہی اس سے اساتذہ پر موثر چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکا۔ بلوچستان میں جہاں سب سے زیادہ غربت ہے وہاں صوبے کے غریب عوام انٹرنیٹ کے اخراجات کہاں سے لائیں گے ان کو آن لائن نظام کے اخراجات کون دے گا اور وہ آن لائن ایجوکیشن سے کتنے عرصے مستفید ہو سکیں گے۔ الف اعلان این جی او کے ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں گیارہ ہزار چھ سو ستائیس پرائمری سکول،بارہ سو اکہتر مڈل سکول اور نو سو سنتالیس ہائی سکول ہیں جبکہ پرائیویٹ سکول اور دینی مدارس اس کے علاوہ ہیں جبکہ یونیسف کے مطابق ساتھ فیصد بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں یعنی وہ سکول پڑھنے ہی نہیں آتے اور روزانہ اجرت پر کام کاج کرکے اپنے گھروں کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے ستر فیصد سکولوں میں بجلی پانی لیٹرین ودیگر سہولیات کا فقدان ہے اکثرسکولوں میں فرنیچر سمیت سائنس لیبارٹریز کی بھی سہولیات میسر نہیں ہیں، صوبے میں بہت سے سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں جہاں بہت سے تعلیمی اداروں کی چاردیواری تک نہ ہو، وہاں کے تعلیمی نظام میں آن لائن تعلیمی سیشن کا آغاز یقینا ایک انقلاب ہے۔ بلوچستان میں آن لائن نظام سے مجھے نہیں لگتا کہ تعلیمی میدان میں خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے تاہم تعلیمی نظام میں حسب سابق تجربات کی طرح یہ بھی ایک تجربہ ہوگا اور اس کی کامیابی کیلئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔

بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سہولیات نہ ہوں وہاں صرف اللہ پر توکل کرکے دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں، بلوچستان کے نظام تعلیم میں بڑے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، صوبے میں اگر حقیقی معنوں میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا مقصود ہے تو بلوچستان بھر کے اساتذہ کی سو فیصد حاضری یقینی بنانی ہو گی جوکہ انتہائی مشکل کام ہے سکولوں میں موثر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے تاکہ اساتذہ کی کارگردگی کے ساتھ ساتھ سکول کے تعلیمی معیار بھی بہتر ہو سکیں اور اساتذہ بہترین کارگردگی کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار میں بھی بہتری لانے جیسے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے تاکہ بلوچستان کا تعلیمی نظام دیگر صوبوں کے برابر ہو سکے۔

اگر نظام تعلیم میں انقلاب لانا مقصود ہے تو صوبے کے نظام تعلیم کو سیاست کے اثرورسوخ سے دور یا پاک کر دیا جائے یعنی ایم پی ایز، ایم این ایز، قبائلی شخصیات کی مداخلت سے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کو مکمل پاک کیا جائے۔ پسند ناپسند اور سفارش کو تعلیمی نظام سے ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے صوبے بھر میں شعبہ تعلیم میں صرف اور صرف میرٹ کے تحت تقرریاں،تبادلے کئے جائیں اوراگر کہیں بھی آفیسران کی جانب سے غفلت ہو اس پر میرٹ کے مطابق فورا ًایکشن لیا جائے اور ساتھ ہی محکمانہ کاروائی کی جائے، سزا وجزا ہی سے ادارے مستحکم ہو سکتے ہیں۔

تاکہ آئندہ بلوچستان میں تعلیمی امرجنسی یا تعلیمی اصلاحات کے نام پر تعلیم کے ساتھ مذاق نہ ہو اور اس طرح کے اقدامات صرف کاغذوں کی بھی زینت نہ بنیں لیکن حقیقت میں بلوچستان کے تباہ حال نظام تعلیم کو ایک انقلابی تعلیمی نظام کی جانب گامزن کرنے کیلئے سردار یار محمد رند کیلئے مشکلات ضرور ہیں لیکن یہ ناممکن نہیں،وزیر تعلیم سردار یار محمد رند اگر صوبے میں تعلیمی انقلاب لانا چاہتے ہیں اور بلوچستان کے پسماندہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو شعبہ تعلیم کو سیاست سفارش سے پاک کرنا ہوگا اور تمام تر فیصلے میرٹ پر کرنے ہونگے۔پسند ناپسند نے ہی نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔

بلوچستان میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی سردار یار محمد رند کی صلاحتیوں کا امتحان ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر تعلیم بلوچستان میں نظام تعلیم کو صحیح ٹریک پر لانے میں کیا کیا انقلابی تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور تعلیمی اداروں کی کارگردگی کا کیا معیار مقرر کر سکتے ہیں۔ تاہم آن لائن تعلیم صرف ایک نعرہ ہے اس پر وسائل خرچ کرنے کے بجائے صوبے کے تعلیمی اداروں کو تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں، اساتذہ کو جدید خطوط پر ٹرینڈ کیا جائے اور اساتذہ کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی موثر مانیٹرنگ اور جائزہ کیلئے ایک الگ غیر سرکاری این جی او یا فرم جس طرح کا تجربہ شہباز شریف نے پنجاب میں کیا تھا۔

کی طرح کی خدمات حاصل کی جائیں اور اس کی جاری کردہ سفارشات کی روشنی اور رپورٹ کے مطابق اداروں کی تعلیمی معیار کی صف بندی کی جائے۔اس طرح کی حکمت عملی اپنانے سے بلوچستان میں تعلیمی معیار میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔