|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2020

یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اخبارات میں ادارتی صفحات اس کی جان ہوتے ہیں لیکن اگر وہاں مختلف خیالات ونظریات کے بجائے ایک ہی موضوع کو مختلف عنوان دے کر شائع کیا گیا ہو تو پڑھنے کا مزہ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک اخبار میری نظر سے گزری کسی بھی اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنا میں فرض عین سمجھتا ہوں،شائع شدہ کالمز پہ نظر پڑی مختلف عنوان موضوع سب کا ایک۔اب بھلا کوئی کیوں اپنا وقت برباد کرے گا ایسے مضامین پڑھ کر اور اخبار میں بھی بڑے کروفر سے ان کالمز کو شائع کیا گیا، کیا ہمارے پاس سیاسی باتیں لکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔یہ حال صرف اس اخبار کا نہیں جو میرے ہاتھ لگی تھی ما سوائے چند کے سب کا یہی حال ہے۔

آج کے دور میں ان سیاسی خبروں سے بچہ بچہ باخبر ہے اب کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کا ضخیم کالم پڑھے۔اپنا موضوع بدلیے تاکہ قارئین کو کچھ اور پڑھنے کو ملے۔یہ سیاسی خبریں پڑھ پڑھ کے ہمارے ذہن کرونا زدہ ہو گئے ہیں۔جب سے کرونا سے واسطہ پڑا ہے سب اخبارات میں اس کم بخت نے جگہ لے لی ہے ہر ایک بڑی شان سے اس کی برائیاں بیان کر رہا ہے کوئی تو اس کے فائدے بھی گردانتا ہے اب ہماری توجہ کا محورو مرکز یہی ہے۔اس پر اتنا لکھا گیا لیکن پھر بھی لکھا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے لکھنے کا ٹرینڈ بنایا ہوا ہے سب لکھ رہے ہیں ایک ہی اخبار میں کرونا پہ چھپے اتنے سارے کالمز اخبار کو بھی کرونا زدہ بنا دیتے ہیں۔

ہر کوئی اسے چھونے سے بھی پرہیز کرتا ہے کل ایک دوست نے اپنی تحریر مجھے میل کی کہ فلاں اخبار میں اسے جگہ نہیں دی گئی، جب میں نے اسے پڑھا،کمال تحریر تھی اخلاقیات کے موضوع پر لکھی گئی تھی میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ کرونا پہ لکھیے کچھ سیاستدانوں کی تعریف کے پل۔باندھتے اور کچھ پر جملے کستے ایسی تحاریر جھٹ سے شائع ہو جاتی ہیں باقی آپ اپنی اتنی اچھی تحریر فیس بک کی نظر کیجیے میاں وہاں دال نہیں گلے گی کیونکہ سیاست سے پاک تحریریں غیر موزوں ہوتی ہیں۔

یقین مانیے ماسوائے چند کالم نویسوں کے باقی تمام کا موضوع ایک ہوتا ہے گویا ایسے لگتا ہے کہ کالم نویسوں نے فقرے ایک دوسرے سے ادھار لیے ہوں کبھی اس کے حصے میں تو کبھی اس کے حصے میں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ تیار شدہ چیز کی تاک میں ہوتے ہیں جب مل جاتی ہے تو ہاتھ صاف کر لیتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے ہم غوروخوض نہیں کرتے پھر اتنے سارے موضوعات میں سے سب کا موضوع ایک ہونا مطلب سب کی نظر اس پکی پکائی دیگ پر ہے جس کو تیار کرنے میں کھانوں والوں نے تکلیف نہیں کی اور بے تکلف ہو کر دیگ صاف کر لی۔

پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی معاملات کو موضوع بحث نہیں بنایا جائے؟ بنایا جائے اس سے مفر ممکن نہیں لیکن ایسا تو نہیں ہونا چاہیے نا کہ ایڈیٹوریلز سے لے کر تمام کالمز سیاسی موضوعات سے بھرے پڑے ہوں اور بحث ایک ہی محور میں گردش کر رہی تو اخلاقیات پہ کون بات کر یگا، ادب کو کون زیر بحث لائے گا، فلسفے پر کون خامہ فرسائی کرے گا۔سائنس اور سماجیات پر کون رقمطراز ہو گا۔
کرونا اور سیاسی معاملات اور محاذ آرائی کے علاوہ اور جہاں بھی ہے کچھ مختلف لکھیے بہت ہو گیا۔۔۔۔۔۔!