پٹ فیڈر کینال بلوچستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یقینا اسی وجہ سے نصیرآباد صوبے کا گرین اور سرسبز و شاداب علاقہ کہلاتا ہے پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے نصیرآباد میں معاشی نمو میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ پٹ فیڈر کینال کی وجہ سے مقامی لوگ زراعت سے وابستہ ہونے اور زرعی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پٹ فیڈر کینال کی بدولت لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان اگر پٹ فیڈر کینال پر خصوصی توجہ دے تو پٹ فیڈر کینال کے باعث بلوچستان خوراک اور گندم کے حوالے سے خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی اضافی زرعی اجناس برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ اور اچھی کوالٹی کی گندم چاول اور چنا سمیت دیگر سبزیوں کی کاشت کی جاتی ہے اور نصیرآباد گندم کے پیداوارکے حوالے سے مشہور بھی ہے پٹ فیڈر کینال میں صوبے کے پانی کا حصہ 6ہزار7سو کیوسک ہے لیکن 2010اور 2012 کے تباہ کن سیلاب اور بارشوں کے باعث پٹ فیڈر کینال مکمل طور پر منہدم ہو چکا اور کوئی پچاس کلومیٹر تک کینال کے دونوں سائیڈ کے پشتیں اور کنارے بالکل ختم ہو گئے ہیں جس کے باعث کینال میں پانی کا بہاؤ اور روانی متاثر ہو رہا ہے اور کینال میں پانی کی کیپسٹی اب کم ہو کر چار ہزار سے پانچ ہزار کے قریب ہو چکی ہے اور اسی وجہ زرعی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔کینال میں پانی کی کمی کے باعث ذیلی کینالوں کی ٹیل کے کاشتکار اور کسانوں کو پانی کی فراہمی نہیں ہو رہی ہے۔
پانی کی عدم فراہمی کے باعث سرسبز و شاداب زمینیں بنجر بنتی جا رہی ہیں اور تو اور ٹیل کے کسانوں اور زمینداروں کو پینے کے پانی کی فراہمی بھی نہیں ہو رہی ہے اسی وجہ.سے ٹیل کے زمینداروں اور کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پٹ فیڈر کینال کے کمانڈ ایریا جوکہ 8 لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ زرعی زمینوں کو آباد اور سیراب کرکے جہاں نصیرآباد معاشی ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر رہا ہے، وہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی تجارت اور کاروباری طبقہ اس سے بہتر انداز میں مستفید بھی ہو رہے ہیں جس کے باعث نصیرآباد میں باقی علاقوں کی نسبت غربت کی شرح کم ہے۔نصیرآباد میں زراعت ہی کی بدولت معاشی ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے۔
لیکن پٹ فیڈر کمانڈ ایریا میں پانی کی تقسیم کے طریقہ کار محکمہ انہار یعنی آبپاشی کے ذمہ ہے جہاں پانی کی تقسیم کار منصفانہ نہیں واٹر کورسسز کی منظوری قبائلی اور سیاسی اپروچ رکھنے والوں کیلئے مشکل کے بجائے انتہائی سہل بنتا جا رہا ہے جبکہ بغیر سفارش والوں کے لئے واٹر کورسز کی منظوری قلعہ خیبر فتح کرنے کے مترادف ہے اور ساتھ ہی میرٹ کے برعکس پانی کی تقسیم بھی ٹیل کے کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے پٹ فیڈر کینال میں جہاں پانی کی کمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہاں ناجائر پائپس کے ذریعے پانی چوری کی بدولت ٹیل کسانوں کے لئے ایسے و موت کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور اسی وجہ.سے پانی ٹیل تک نہیں پہنچ رہا ہے جس سے ٹیل کے زمیندار کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ سینکڑوں ایکٹر اراضی غیر قانونی پائپس کے تحت پانی لفٹ کرکے زمینوں کو آباد کیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے ٹیل کے کسانوں اور کاشتکاروں کی حق تلافی کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیل کے زمینوں کے بنجر بننے کی اصل وجہ ہے محکمہ اریگیشن کا نظام کا نظام بھی نرالا ہے جب تک محکمہ اریگیشن میرٹ اور بلا امتیاز سیاست سفارش اور دباو کے برعکس فیصلے کرتی رہے گی اس وقت تک ٹیل کے زمینوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہ ہو گا جب تک غیر قانونی پائپس نکالنے اور بااثر و طاقتور لوگوں کے غیر قانونی پائپس منہدم نہیں کیئے جائیں گے تب تک ٹیل کے زمینوں کا صحرائے تھر کا منظر پیش کرنا کوئی بھی معجزہ ہی بچا سکے گا۔
پٹ فیڈر کینال میں پانی کی کمی پر کسانوں اور کاشتکار اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں اور قومی شاہراہ تک بلاک کی جاتی ہے گزشتہ سال کسانوں اور زمینداروں نے مجبور ہو قرآن پاک اور اپنے بچوں کے ہمراہ اپنے احتجاج کیا اور پانی کی فراہمی کا مطالبہ کیا لیکن اس احتجاج کا بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکا اور نہ ہی صوبائی حکومت اور اریگیشن حکام نے ٹیل سمیت دیگر کسانوں کو پانی کی فراہمی کیلئے کوئی خاص حکمت عملی اپنائی۔ پٹ فیڈر کینال بلوچستان کی معاشی شہ رگ ہے اور پٹ فیڈر کینال کی بحالی اور اپنے حصے کا پورا پانی وصول کرنے سے ہی بلوچستان زرعی اجناس میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔
اور ملک سمیت افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کو بھی فاضل گندم اور چاول برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ بلوچستان کے حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث پٹ فیڈر کینال دن بدن خستہ حالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے، کیا جام کمال سرکار ایک سال کی ترقیاتی بجٹ سے کچھ رقم مختص کرکے پٹ فیڈر کینال کو کچھی کینال طرز پر پختہ بنا کر ترقی اور خوشحالی کا انقلاب برپا کر سکتا ہے جبکہ نصیرآباد کے ایم این ایز وفاق سے بھی فنڈز حاصل کرکے پٹ فیڈر کینال کو پختہ کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں تاہم پٹ فیڈر کینال پر عدم توجہی سے جہاں بلوچستان کا سرسبز و شاداب اور گرین بیلٹ مستقبل کا تھر بن جائے گا۔
اوریہ بلوچستان اور بلوچستانی عوام کیلئے بد قسمتی کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک المیہ اور انسانی بحران کا روپ دھار سکتا ہے۔ چند ماہ قبل بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل کے دورہ نصیرآباد ڈویژن کے دوران کسان اور کاشتکار تحریک کے چیئرمین کامریڈ حیدر بلوچ اور دیگر زمینداروں کا چیف جسٹس بلوچستان سے ملاقات میں کسانوں اور زمینداروں نے ان سے پٹ فیڈر کینال کی مکمل بحالی اور پانی کی کمی کے خاتمے کیلئے درخواست کی جبکہ ڈیرہ مراد جمالی کے بار روم میں معززین و معتبرین سے ملاقات کے دوران رکن صوبائی اسمبلی میر سکندر خان عمرانی نے بھی پٹ فیڈر کی مکمل بحالی اور اوچ پاور کے متعلق مکمل بریفنگ دی۔
اور اس دوران شہر کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے یقین دلایا کہ پٹ فیڈر کینال کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے احکامات دیں گے جبکہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیومن رائٹس راحب خان بلیدی نے بھی پٹ فیڈر کینال کی زبوں حالی کینال میں پانی کی کمی ٹیل کے زمینداروں اور کسانوں تک پانی کی فراہمی یقینی بنانے، کینال کے ڈی سلٹنگ اور کنارے اور پشتوں کو پختہ کرنے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس فائل کر دیا ہے۔
معروف قانون دان راحب بلیدی کا موقف ہے کہ پٹ فیڈر کینال سے نصیرآباد کے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہ صوبے کی معاشی ترقی کا شہ رگ ہے حکومتی عدم توجہی کے باعث پٹ فیڈر جیسے اہمیت کے حامل کینال کی مکمل ٹوٹ پھوٹ حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس کیلئے حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہ کرنا زراعت کے تباہی اور علاقے کو بنجر بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے عوامی مفادات کے تحفظ اس وقت تک مکمل ہو سکتا ہے جب پٹ فیڈر کینال جیسے اہم مسئلہ کیلئے ہر فرد اپنا رول پلے کرے تاکہ کینال کی بہتری اور ڈی سلٹنگ سے جہاں پانی کے روانی میں اضافہ ہوگا۔
وہاں نصیرآباد کی زرخیری میں اضافہ اور زراعت میں انقلاب بھی برپا ہو کسانوں اور کاشتکاروں کی بلوچستان ہائی کورٹ سے امید ہے کہ وہ پٹ فیڈر کینال کے کیس کا فیصلہ دیکر حکومت کو کینال کی بحالی اور ٹیل کے کسانوں اور زمینداروں تک پانی کی بلاامتیاز فراہمی یقینی بنانے کیلئے احکامات جاری کریگی اور ساتھ ہی پانی کی منصفانہ تقسیم اور غیر قانونی وناجائز پائپس کا خاتمہ کرکے میرٹ پر لوگوں کو ان کے پانی کا جائز حصہ دیکر زراعت کی ترقی اور بلوچستان کی خوشحالی کے عظیم وژن کی بنیاد رکھیں گے