تا ریخ واقعات کسی کو معاف نہیں کرتا جن لوگوں نے جدت کی بات کی مسلطوں سے بالا تر ہو کر سچا ئی کا علم بلند رکھا وہ امر ہو گئے آج بھی تا ریخ کے روشن ستارے اور تا ریخ کے انمول اثاثے ان کے افکا ر ان کے نظر یات اور فلسفہ روشنی کے وہ بلند مینا ر ہے جو معاشرے میں بنی نو ح انسان کی رہنما ئی کر تے چلے آرہے ہیں اورجمہو ر کے خلا ف تحریک کا سبب بنے اورنئے تخلیق اورجدت کا با عث بنے۔تا ریخ بتا تی ہے کہ گلیلو سچا تھا اس کی سچ کو کھتو لک چر چ نے جھٹلا کراسے کا فر قرار دیا لیکن تاریخ نے انھیں سچا ثا بت کیا۔سقراط نے زہر کا پیا لہ نوش کرکے یو نا ن کے طا قتور حکمر انوں کو تا ریخ کا تماچہ مارا آور امر ہو گے۔
آج دنیا سقراط اور گلیلوکا پیرو کا ر اوروہ حکمران تا ریخ کے ڈسٹ بن میں مدفن ہے ان کا کوئی نا م لیوا نہیں۔دنیا کی تا ریخ میں اس قسم کے انگنت مثا لیں ہیں جو ہما رلیئے با عث تقلید ہے پاکستان کی تا ریخ میں اس قسم کے کہی شخصیات گزرے ہیں اور اب بھی ہے جو اپنی طاقت اور منصب کے گھمنڈ میں اس با ت کو بھول گئے کہ طا قت کو تا ریخ سے ہمیشہ شکست ہو ئی ہے اور کامرانی حق و صدا قت کو ملی ہے جتنے بھی آمر گزرے ہیں انھیں تا ریخ نے اپنے اورا ق میں جگہ نہیں دی بلکہ تاریخ کے ہر طالبعلم کے لئے با عث تلقین اور سبق آموز اور با عث عبرت ہے اس لیے جو قو میں تاریخ سے سبق سیکھتے ہو ے درست فیصلے اور سمت کا تعین کرتے ہیں۔
وہ تر قی سے ہمکنا ر ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا کی ضر وریا ت،رجحا نات کے تقا ضو ں کا ادارک کرتے ہوئے ما ضی کے حکمر انو ں مطلق العنان پا لیسو ں کو تر ک کرکے ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت جو حقیقی جمہوریت،اور وفاقیت کی غما زی کرے اور تر قی کا با عث بنے۔ اس کا ایک مثال امر یکا ہے جہاں ْ نسلی امتیا ز کا یہ عالم تھا کہ سیا ہ فا م امریکن کو ووٹ کا حق حا صل نہیں تھا ا امر یکہ اپنے روش بدلی 13 ریا ستو ں کوبڑا کر 53 تشکیل کی اور انھیں مکمل قا نونی،معاشی، سیا سی آزادی دے دی اورسفید فام یو روپین اپنے ملکی مفا د میں وسیع النظری کا مظا ہرہ کرتے ہوئے اپنے نقطعہ نظر اور تعصبا نہ ذہنیت میں انقلا بی تبدلی لا کر اپنے ہم وطنو ں کو گلے سے لگا کر ان کو قومی دھارے شامل کیا۔
جسکی وجہ سے اوبا مہ امر یکہ کا دومرتبہ صدر منتخب ہوا وہ ایک کا میاب صدراور عالمی رہنما ء کے طور پر اپنے کو تاریخ میں ثا بت کیا اور ما ضی کے ان حکمر انوں تعصبا نہ روش کو تاریخ نے غلط ثا بت کیا۔آج امریکہ دنیا کی بڑی معاشی،سیاسی،عسکری طا قت ہے اور اس سے بدتر صور تحال جنوبی افریقہ کا تھا۔معاشی عدم استحکام بدامنی کا سب سے بڑا سبب نسلی امتزاج اور قومی حق جیتی کا نہ ہونا تھا۔ جنوبی افریقہ کے سفید فا م نسل پرست حکو مت کو ادراک ہوا کہ ریاست کی ترقی و تعمیر کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن قو می عمارت کی تعمیر ہی سے قو موں کی تر قی مر بو ط ہیں۔
اپنے ماضی کی روش کو ترک کرکے سیاہ فا م اکثریت کو دل جا ن سے تسلیم کیا اور نیلسن منڈیلا کی قیا دت میں ایک قومی حکو مت وجود میں آیا جس نے نہ صرف جنوبی افریقہ کو خا نہ جنگی سے نجا ت دلا دی بلکہ تر قی یا فتہ قوموں میں شا مل کیا۔ پا کستان کی قو می تنوع diversity اسکی خو بصورت نقشہ ہے۔ہر ثقا فتی رنگ کے اپنے دل کش خدوخال نقوش ہے ادب ہو تومست توکلی،شاہ لطیف بھٹائی،بلھے شاہ، رحمان بابا کی پراثر اور پر مہرشا عری ہما رے انمٹ تا ریخی ورثے ہیں،موسیقی کے پر اثر دھن او طرز ہو یا پھر مہرگڑ ھ،موہنجو داڑو،ہڑپّہ،سوات کے قدیم آثار قدیمہ،جہاں انسانی ترقی کا آغا ز ہوتا ہے۔
یہ قدیم تہذیب وتمدن جہاں انسا ن اپنے معا شرتی زندگی کا شعو ری انداز میں آغا ز کر تا ہے نہ صرف ہما ری قومی ورثے ہیں بلکہ پورے دنیا کے لیے اس خطے کی شعوری معراج کو اجا گر کرتے ہیں۔ میری تحریر پھر بھی پاکستا ن کے خو بصورت تنوع(diversity)کا احا طہ نہیں کر سکتی۔ آئین کسی بھی ریا ست میں نہ صرف قومی وحدتوں کے معا شی،انتظامی،معا شرتی،قانونی،بنیا دی،انسانی حقوق کا تعین کر تی ہے بلکہ تحریری ضما نت ریاست اور اپنے شہریوں کے ساتھ معاہدہ ہوتی ہے۔ اٹھاروویں ترمیم ملک کے آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق اورصوبوں کے درمیان اختیارات اوروسائل کی تقسیم کا وفاقیت کے اصولوں پر مبنی ایک مر بوط قابل عمل طریقہ کار واضع کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں اور تاریخی سچائی ہے کہ قیام پاکستان سے وسائل کی تقسیم اہم سوال رہا ہے اور قومی وحدتوں کی اپنے وسائل پر واک اختیار انکی سیاسی جدوجہد کا محوراٹھاروویں ترمیم میں نیشنل پارٹی کی جا نب سے سینٹ ممبر ڈاکٹر عبد کامالک بلوچ اور میر حا صل خان بزنجو کے تجاویز اور کا وشیں آئین کے آرٹیکل 172اور سب آرٹیکل(3)کا اضافہ کیا گیا جس کے مطا بق اب تیل اور گیس صوبوں اور وفاق کے درمیان برابر اور مشتر کہ ملکیت ہے متعلقہ صوبے میں میں گیس اور تیل کے کوئی بھی فیصلے میں صوبہ کی منشاء اور کسی بھی فیصلے کی رضا مندی آئین ضما نت دیتی ہے۔
یک طر فہ طور کوئی معا ہدہ آئین کے برخلاف ہے۔اس ضمن بلوچستان حکومت نے ڈاکٹر مالک دورمیں سی سی آئی کو سمری بھیجی تھی اس اہم مسئلہ پر کونسل آف مشترکہ مفادات از سر نو رول آف بزنس بنائے جو آئین کے مذکورہ آرٹیکل کو مو ثرہو تاکے اس پر عمل درآمدہو۔ اب رہی با ت سونے تا نبے کے ذخائر کے یہ تو اٹھا روویں ترمیم سے قبل خا لصتاًصوبو ں کی ملکیت ہے اسے 18ویں ترمیم کے سا تھ جو ڑنا یا پھر وفاق سے حصہ بڑھانے کا مطالبے آئین کے خلاف ہے جیسے میں نے ذکر کیا کہ اٹھا روویں تر میم کا آئین کا حصہ ہونا سیاسی جما عتوں اوربالخصو ص میر غوث بخش بزنجو کے ون یونٹ کے خلاف طویل اور صبر آزما جہد وجہدجس کے پا داش مین انھیں 14سال سزا ہوئی اور صوبو ں کے صوبائی خو د مختیاری کے جہد و جْہد کا ثمر ہے۔
بلا شبہ اٹھا روویں ترمیم نے پاکستان کو دنیا میں ان 28 ملکوں کے صف میں شامل کرنے کا مو جب بنا جو وفاقی ہے اور ان مما لک میں جرمنی،آسٹر یلیا،آسٹریا،بیلجیم، برازیل،بوسینا،ارجنٹائن،کینڈا،اتیوپیا،انڈیا،عراق،ملا ئیشیا،ساؤتھ افریقہ،میکسیکو،نیپال،نائجیریا،روس،سپین،سوڈان،امریکہ،سوئزلینڈ،وینز ویلا اور متحدہ عرب امارت اور پاکستان شامل ہیں فورم آف فیڈریشن دنیا میں وفاقیت کے فروغ کے لیے کا م کرتی ہے ان ممالک میں سے سا تھ ایسے ہیں جو وفاقیت کے فروغ کے لئے اس بین الاقوامی فورم کے پارٹنر ہے ان میں پاکستان کے ساتھ جرمنی، بھارت، برازیل، کینڈا، میکسیکو، ایتو پیا اور نا ئجیریا شامل ہیں اور بین الاقومی وفا قیت کے برادری میں شامل ہونے کا اعزاز پا کستا ن کو اٹھا روویں ترمیم کی وجہ سے ملا۔
پاکستان کا 1973 کا آئین با رہ حصو ں اور 28 ابواب پر ترتیب دیا گیاتھا جو 280 آرٹیکل پا نچ شیڈول اور ابتدائیہ پر مشتمل تھا جو حقیقی وفاقیت کی صیح معنو ں میں عکا سی نہیں کرتی تھی۔ پاکستان کے تما م سیا سی جماعتوں کے اکابرین نے 2010 میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں متفقہ طور پر اٹھا روویں ترمیم پا س کیا ترمیم میں 100آرٹیکلز پر نظر ثانی کی گئی ان میں سے 69 آرٹیکلز کو تبدیل کیا گیا 20 کو بدلا گیا، 7نئے آٹیکلز شا مل کیے گئے اور تین آرٹیکلز کو ختم کیاگیا اٹھا روویں ترمیم نے طرز حکمر انی کے نئے اندا ز نہ صرف واضع کئے بلکہ جمہو ریت کی نمو اور وفا قیت کی حقیقی معنو ں میں عمل درآمد کے لیے آئین کو مضبو ط ڈھا ل بنا دیا ہے۔
آئین کسی بھی ملک کے شہریو ں کے تمناؤ ں،خواہشا ت اور حقو ق کا آئینہ اور ان کے امیدوں کا نوید ہوتا ہے اسکی تحفظ اور نگر انی ملک کے تما شہریوں اور تمام اداروں کا فر ض ہو تا ہے۔ اب وفا ق اٹھا روویں ترمیم کے بعد وفاق صوبو ں کے اختیا رات کو مختلف انداز میں سلب کر رہی ہے۔وفاقی سطح پر جو وزارتیں وفاقی وحدتوں کو منتقل کی گئی تھی انکے نام بدل کر اپنے پاس رکھے اور Encroachment کی پالیسی ہنوز بے حسی سے جاری ہے بجٹ بھی ان محکموں کو چلانے کیلئے نہیں دئیے ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کے مطابق بجٹ منتقل کرتے۔
کیونکہ وفاق جو وزارتیں وفا قی سطح پر استعمال کرنے کے بجا ئے ان کی استعا داد کو بڑ ھائے۔صوبے اٹھا روویں ترمیم کے روشنی میں بلا عجلت قا نون سازی کرے کیو نکہ اگر قا نون سازی نہیں ہوگی تو آئین کے مطا بق وفا ق میں موجود قا نون کا اطلاق ہوگا اور قانون اس وقت تک مو ثر ہوگاجب تک صوبہ متعلقہ قا نون اپنے اسمبلی سے پاس نہیں کر ے گی۔دستوری طور پر پاکستان بہت سے وفا قی مما لک سے زیادہ فیڈرل ہے۔بس ضرور ت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے مرکزیت پسند ذہنیت میں تبدلی لائیں اور وفا قی اکائیوں کو خو د مختیا ر کر کے شراکتی وفا قیت کے لیے ساز گار ما حول بنا دیں۔درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ اٹھاروویں ترمیم پر عمل درآمد ہو۔
1۔این ایف سی ایوارڈ فوری طور پراجلاس ہو جو ایک ضرورت ہیے تاکہ مالیاتی بحران حل ہو
2۔ Capital Administration Development And Division کو PTI کی حکومت نے ختم کی اسے بحال کیا جائے تاکہ وہ منتقل وزارتوں کا نظم نسق اسلام آباد کی سطح تک سنبھال سکیں کیونکہ جو محکمے صوبوں کو دیئے گئے اس کا وفاق سے کو سروکار نہیں۔
3۔ فیڈرل لیجئس لیٹو لسٹ legislative list کونسل آف کامن انٹریسٹ کے زمرے میں آتے اور وہ مجاز ہے اس پر فیصلہ کرنے کا۔
4۔آئینی طور پر ہر تین مینے کے بعد CCI کا اجلاس ہو۔
5۔ حقیقی جمہوریت حقیقی وفاقیت صاف شفاف انتخابات ہی ترقی استحکام کی ضمانت فرائم کرسکتا ہے تاریخ سے سبق سیکھ لے۔
ishaquebaloch@gmail.comk