|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2020

بلوچستان کو وفاق کی جانب سے ہمیشہ اور ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی صوبہ پر وفاق کی وہ توجہ نہیں جس طرح باقی صوبوں پر دی جا رہی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں اب بھی انسان اور حیوان ایک ہی تالاب، جوھڑ، گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اگر اس کو اس طرح کہا جائے کہ جدید دور میں بھی بلوچستانی عوام اور حیوان جہاں ایک ہی طرح کے تالاب سے اکٹھے پانی پیتے ہوں اور ان حیوانوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں وہاں صوبے میں صاف پانی کا حصول انتہائی جان جوکھوں کا ہے۔

بلوچستان میں روز بروز پینے کے پانی کی کمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صوبے میں پینے اورزراعت کیلئے سب سے زیادہ تر انحصار بارشوں کے پانی پر ہے بارشوں اور دریائی پانی جو گاڑھا گدلا اور مٹی مکس ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام اسے اپنی خوش قسمتی سمجھ کر پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اسی پانی کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بھی بناتے ہیں۔ بلوچستان میں قدرت کے زیر زمین وسیع ذخائر دفن ہیں وہ شاید پاکستان کے دوسرے صوبوں میں نہ ہوں بلوچستان میں قدرت کے بے تحاشہ خرانے ہیں لیکن اتنے معدنیات اور وسائل کے باوجود صوبے کے عوام مفلوک الحال زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان میں گیس,تیل, کرومائیٹ, ریکوڈک سینڈک, اعلیٰ کوالٹی کے ماربلز, ساحل سمندر,سونا,قیمتی پتھر اور زیر زمین ذخائر موجود ہونے کے باوجود بلوچستانیوں کی تقدیر بدلنے کا نام تک نہیں لے رہا۔

ستر سالوں سے بلوچستان کے باشندے ترقی جیسی عظیم نعمت کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکے ہیں بلوچستان ملک کا شاید واحد صوبہ ہے جو کہ اپنے ہی ذخائر دریافت ہونے کے باوجود اس کی سہولیات سے محروم ہے۔ 1952 میں سوئی کے مقام سے گیس دریافت ہوئی ہے 68 سال گزرنے کے باوجود سوئی شہر کو جہاں سے گیس دریافت ہوئی ہے وہاں کے مکینوں کو گیس کی بنیادی سہولت تاحال نہیں ملی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟اور اس عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا کون جواب دہ ہے,جہاں بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہاں وفاق اور بلوچستان کی حکومت بھی صوبے کی ترقی کیلئے کوئی خاص اقدامات اٹھا نہیں رہی اور نہ ہی بلوچستان ان حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔

صوبے کے عوام کے لیے اکیسویں صدی میں بھی پینے کیلئے پانی ناپید اور نایاب ہو،لوگ آسمان کی طرف دیکھتے ہوں اور اللہ کے حضور بارش کیلئے سربسجود ہوں یقینا بلوچستان کے نوے فیصد علاقوں میں پانی کاواحد ذریعہ صرف اور صرف بارش ہی ہے۔ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کچھی کینال کا ایک بہت بڑا اور عظیم منصوبہیکا افتتاح کیا گیا جوکہ تونسہ بیراج کے مقام سے نکالا گیاتھا کچھی کینال سے سات لاکھ ایکٹر کوقابل کاشت بنایا جا سکتا ہے اور اس سے بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی, نصیرآباد, کچھی,لہڑی,جھل مگسی کے اضلاع کے وسیع و عریض علاقے سیراب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہونے کے باوجود زراعت اور قابل کاشت رقبے کی شرح انتہائی کم ہے۔

جس کی بنیادی وجہ پانی کی کمی ہے کچھی کینال کی تعمیر سے جہاں بلوچستان میں زراعت کا انقلاب برپا ہو سکتا تھا وہاں وفاق کی عدم توجہی اور بلوچستان کے حکومتوں کی غفلت کے باعث کچھی کینال کا میگا منصوبے کو صرف ڈیرہ بگٹی تک ہی لایا گیا۔ 2017 میں اس کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا تھا کچھی کینال صوبے کے سات لاکھ ایکٹر آباد کرنے والے بڑے منصوبے کو صرف اور صرف ستر ہزار ایکٹر سیراب کرنے تک محدود کیا گیا جوکہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت اس عظیم منصوبے سے لا علم تھا کیا ہمارے منتخب نمائندے زمیندار اور زراعت سے وابستہ نہیں ہیں۔

لیکن بلوچستان کے قومی اسمبلی کے23 اراکین اور 20 سے زائد سینیٹرز اس منصوبے کو ادھورا چھوڑنے پر کبھی لب کشائی کی؟کیا بلوچستان میں جہاں وفاق نے ناانصافیاں کیں ہیں وہاں بلوچستان کے منتخب ایم این ایز،سینیٹرز اور ایم پی ایز نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اپنے حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کا حق آئین بھی دیتا ہے لیکن بلوچستان کے مسائل اور اجتماعی حقوق کو سیاست کی نذر کرکے اس پر خاموشی صوبے اور عوام کے حقوق سے چشم پوشی کے مترادف نہیں؟ کیا عوام اس لیئے انہیں منتخب کرتے ہیں کہ وہاں بیٹھ کر ٹھنڈے موسم کو انجوائے کریں ایوان میں پہنچ کر کسی کی ناراضگی کی خاطر صوبے کے مسائل پر ہمیشہ چپ کا روزہ رکھیں۔ جہاں تک میرے علم میں ہے کہ بلوچستان کے حقوق صرف انتخابات میں ہی ہمارے امیدواروں اور سیاسی اشرافیہ کو یاد آتے ہیں۔

اور پھر ایوانوں کی یخ بستہ ہوائیں اور ایوان کی ٹھنڈی راہ داریوں میں صوبہ اور عوام کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی,مسلم لیگ ن,پی پی پی,بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل,بی.این پی عوامی,نیشنل پارٹی,جمعیت علماء اسلام, بلوچستان عوامی پارٹی تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیاں صوبے میں ترقی کے دعوے پر جو سیاست کرتے ہیں انہوں نے بلوچستان کیلئے کتنی مرتبہ آواز بلند کی ہے؟ کتنی مرتبہ ایوان سے واک آؤٹ کیاہے کتنی مرتبہ تمام جماعتوں نے وزیر اعظم کو بلوچستان کے مسائل کے بارے میں بتایا اور کتنے مسائل حل کرائے ہیں۔

کیا بلوچستان کے حقوق کیلئے سیاست کرنے والی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل, بلوچستان عوامی پارٹی, نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے صوبے کے حقوق کیلئے کس طرح کے کا ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ بلوچستان ملک کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں 70 سالوں سے اب تک نیشنل ہائی وے نے کوئی دو رویہ سڑک تک نہیں بنایا ہے صوبے کی سیاسی قیادت نے این ایچ اے کو کبھی اس امر کا پابند بنایا ہے کہ صوبے میں اموات کی سب سے زیادہ شرح ٹریفک حادثات کی بدولت ہے بلوچستان کے صرف چار قومی شاہراہ ہیں جوکہ گوادر ٹو کراچی کوئٹہ ٹو کراچی, کوئٹہ ٹو سکھر, کوئٹہ ٹو ڈیرہ غازی خان ہیں۔

یہ تمام روڈ سنگل ہیں اور آئے روز حادثات میں قیمتی جانیں موت کے آغوش میں چلی جاتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت سے اختیارات ملے ہیں صوبائی اسمبلی نے کبھی چیئرمین این ایچ اے کو بلایا ہے کبھی غلطی سے صوبے کے خستہ حال سڑکوں کی تفصیلات معلوم کرنے کی جسارت کی ہے یاپھر صرف اجتماعی مسائل کے بجائے انفرادیت کو اولیت دیکر صوبے کے عوام کو ترقیافتہ بنانے کے بجائے ہماری سیاسی قیاست اس طرح روڈ حادثات میں عوام کو مارنا چاہتی ہے۔کیا کسی ایم این اے نے کچھی کینال منصوبے کو نامکمل کرنے کے بارے میں قومی اسمبلی سینٹ اور وزیر اعظم کو بتانے کی کوشش کی ہے۔

کیا کچھی کینال کی اہمیت و افادیت سے ہمارے سیاست دان نابلد ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ کچھی کینال کی وجہ سے بلوچستان کے پانچ اضلاع اور عوام بہتر انداز میں مستفید ہو سکیں گے جہاں زرعی انقلاب کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو سکے گا، کیا اس جدید ترقیافتہ دور میں بھی صوبے کے بدقسمت عوام اور جانور ایک ہی ساتھ ایک ہی تالاب سے پانی پیتے رہیں گے لیکن اس کے برعکس صوبے کے عوام بے حس ہو چکے ہیں کیا وہ نمائندوں کو منتخب کرنے کے بعد ان سے مسائل حل کرنے کی توقع نہیں کرتے جہاں ان ستر سالوں سے صوبے کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا ہے۔

صوبے کی پسماندگی,عدم ترقی، احساس محرومی کے اضافہ میں صوبے کی سیاسی پارٹیاں بیورو، کریسی ذمہ دار ہے وہاں صوبے کے عوام، سول سوسائٹی، صحافی برادری بھی برابر کی شریک ہے،ان کی خاموشی ہی بلوچستان کی پسماندگی کی اصل وجہ ہے اب وقت آگیا ہے کہ تمام طبقات کو بلوچستان کے حقوق,ترقی, پسماندگی,احساس محرومی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی اور قلمی جدوجہد کرکے بلوچستان کو ترقیافتہ بنانے کیلئے ایک عظیم مشن کا مصمم ارادہ کرنا ہوگا ورنہ بقول کسے. تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں.۔