ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔یومِ ماں یا ماں کا عالمی دن ہر سال یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ نہیں، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان اور اطالیہ سمیت اکثر ممالک یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔۔
اور کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو یہ دن جنوری،مارچ،نومبر یا اکتوبر میں مناتے ہیں۔اس دن کو منانے کا مقصد اپنی والدہ کی اہمیت کا احساس کرنا، ان کی خدمت کرنا اور انہیں خوشی دینا ہے۔ماں زندگی کا انمول تحفہ ہے. ماں کے بغیر انسان ادھورا ہے. ماں کے قدموں تلے جنت تو ہے مگروہ دنیا کا رحم دل انسان بھی ہے. ماں جب مجھے دودھ پلاتی تھی تو مجھے ایسے لگتا تھا جیسے جنت سے دودھ آیا ہے. میں روتا تو ماں بھی میرا ساتھ دیتی اور کہتی بیٹا کیا تکلیف ہے؟ تو میں اس وقت کچھ نہ بول سکتا تو میں رونے کے انداز میں ساری تکلیف ماں کو سنا دیتا تو ماں سمجھ جاتی مجھے کیا چاہیے ہے۔
مجھے اس ذات کے بارے میں لکھنا ہے جس کے گرد میری ہستی گھومتی ہے، جس کے ہونے سے میری دنیا مکمل ہوتی ہے. وہ جس جگہ نہیں ہوتی وہاں نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور جابیٹھتی ہے. وہ جو میری کامیابیوں کی وجہ ہے، وہ جو میری خوشیوں کی ضمانت ہے.جی ہاں اسی ہستی کی بات کررہا ہوں جس کے ہوتے ہوئے گھر جنت ہے اور نہ ہوتے ہوئے کوئی ویران سا قبرستان. جو قدموں میں جنت رکھتی ہے تو ہاتھوں میں شفقت کا سایہ۔ سہی سمجھے آپ۔۔۔۔
محبت، عشق، چاہت کا جو رشتہ ہے میری ماں ہے
بشر کے روپ میں گویا فرشتہ میری ماں ہے
بنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں
وہی دلنشیں، خوش رنگ رشتہ ہے میری ماں ہے
ماں اس کائنات کے سب سے اچھے، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے. خدائے برتر نے اس کائنات میں سب سے خوبصورت جو چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب پر زیادہ فوقیت حاصل ہے کہ
گلاب جیسی، خوشبو جیسی، چودھویں کے چاند جیسی چاندنی، فرشتوں جیسی معصومیت، سچائی کا پیکر، لازوال محبت، شفقت، تڑپ، قربانی، پودے کا سبزہ، پھول کی رنگت، دریا کی روانی، پھل کی مٹھاس، سورج کی روشنی، آسمان کی بلندی، زمین کی وسعت، گھی کی نرمی، پرندے کی پرواز، چکور کا عشق سب مل کرانسان کا بنے تو مرمریں ستونوں کی بہشت ماں کی تخلیق عمل میں آئی۔ ماں کو جنت کی ضرورت نہیں بلکہ ماں خود ایک جنت ہے.میں کچھ بڑا ہوا تو ماں مجھ سے کہنے لگتی “بیٹا جلدی بڑے ہو جاؤ تاکہ میری تکلیف میں کمی ہو۔
”اس رات ماں خوب روئی جب میں ملیریا بخار میں کانپتا رہا. ساری رات نہ ماں سو سکی نہ میں. اگلے روز سویرے ماں مجھے ہسپتال لے گئی مگر ڈاکٹر دیر سے آیا تو ماں بہت پریشان ہو گئی اور بولی ڈاکٹر یہ ٹائم ہے آنے کا تو ڈاکٹر جلدی بولے ماں جی آج میری امی کو سخت بخار تھا اس لیے دیر ہو گئی. آپ کا بیٹا جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر کی باتیں سن کر ماں خاموش ہوگئی۔
اسی وقت ڈاکٹر نے مجھے ایک انجیکشن لگایا تو آدھے گھنٹے میں میرا بخار اتر گیا اور ماں خوش ہوگئی.بچپن سے جوانی تک ماں میرا بہت خیال رکھتی رہی. کل ماں کے سر میں تھوڑا سادرد ہوا تو مجھے احساس ہوا ماں نے سالوں سال تک کس طرح مجھے پال پوس کے بڑا کیا اور میری کس طرح خدمت کی ہوگی. میں اپنے پیاری ماں جی کے ایک پل کا احسان کبھی نہیں اتار سکتا کیونکہ ماں خود ایک جنت ہے اس جنت میں جو داخل ہوا وہ کامیاب ہوگا.
ماں تجھے سلام