|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2020

کورونا وائرس نے تمام ترقیافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت عامہ کی سہولیات اور اقدامات کا پول کھول دیا۔ بلاشبہ کورونا وائرس ایک خطرناک وباء کی صورت میں دنیا بھر میں متعارف ہوئی۔دنیا کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ممالک بھی کورونا وائرس کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ثابت ہوئے ہیں پاکستان ایٹمی ممالک کی صف میں شامل ہے لیکن کورونا وائرس نے پاکستانی قوم کو ایک بہترین سبق دے دیا کہ بیماریوں اور وباء کے مقابلے کیلئے جدید لیبارٹیرز، ادوایات اور وینٹی لیٹرز کی جو ضرورت ہوتی ہے وہاں ایٹم بم اور میزائل کسی کام کے بھی نہیں ہوتے۔

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں چند بڑے سرکاری اسپتال جوکہ کوئٹہ میں قائم ہیں ان کے سوا اندورن بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں بلوچستان میں امن و امان،تعلیم کے بعد صحت کے شعبہ کیلئے خطیر رقم مختص ہونے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں سے عوام کو مفت علاج معالجہ کی کوئی بھی سہولیات میسر نہیں۔صوبے کے تمام شہروں میں سوائے خضدار اور مستونگ کے باقی اسپتالوں میں نہ تو عوام کا علاج کیا جاتا ہے اور نہ ہی مفت ادویات مریضوں کیلئے دستیاب ہیں اور تو اور قنولہ سرینج تک ہسپتالوں میں دستیاب نہیں،اگر کوئی مریض ایمرجنسی میں ہسپتال لایا جاتا ہے۔

تو تمام ادویات تک باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے 32 اضلاع میں ایک بھی بہترین اسپتال نہیں جہاں صوبے کے عوام اپناعلاج کرا سکیں، بلوچستان کے بلخصوص اور نصیرآباد کے بالعموم ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج کرنے کے بجائے انہیں معمولی کیس پر بھی ریفر دیا جاتاہے جہاں صوبے کے غریب عوام مہنگے علاج برداشت نہیں کر سکتے وہاں عوام اپنے پیاروں کے علاج کیلئے ادھار تک لیکر اپنے مریضوں کا علاج کراتے ہیں۔پنجاب، سندھ،کے پی کے میں بھی وفاق اور صوبوں کی جانب سے بہترین ہسپتال بنائے گئے ہیں جہاں تمام بیماریوں کے اسپیشلسٹ موجود ہیں۔

لیکن بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں اچھے اور معیاری ہسپتال تو درکنار صوبے بھر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز تک کی کمی پوری نہیں کی جا سکی ہے اور نہ ہی ادویات مریضوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن میں ایک ایسا سرکاری ہسپتال تک نہیں جہاں عوام اپنا علاج معالجہ کراسکیں اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ ہسپتال یا کوئی بڑا سینٹر ہے بلوچستان سمیت صوبہ بھر بلخصوص نصیرآباد کے عوام اپنا علاج سندھ کے شہروں لاڑکانہ سکھر اور کراچی میں ہی کرانے پر مجبور ہیں جس طرح کراچی میں بڑے لیول کے پرائیویٹ سینٹرز اور سرکاری ہسپتال ہیں لیکن بلوچستان میں اس طرح کی کوئی بھی مثالی ہسپتال یا پرائیویٹ سینٹر موجود نہیں جہاں لوگ اپنے مریضوں کا علاج کرا سکیں۔ مجھے تعجب ہے کہ بلوچستان کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیول پر نہ تو پورا اتر رہا ہے۔

اور نہ ہی ہمارے سیاسی کلاس بیورو کریسی اسٹیبلشمنٹ نے صوبے پر کبھی بھی توجہ دی ہو۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ یاتجربہ گاہ ہے جہاں ہر صوبائی حکومت اپنی تجربات کرکے اصلاحات کا اعلان کرتی ہے اور پھر اگلا حکومت ان منصوبوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے منصوبے شروع کرکے سابقہ منصوبوں کو ختم کرتا ہے یقینا جب جاری منصوبے مکمل ہی نہیں ہونگے تو صوبہ کس طرح ترقی کریگا۔بلوچستان میں کسی بھی جگہ نہ تو سندھ کی طرح دل،گردے لیور ٹرنسپلانٹ و دیگر امراض کا ہسپتال ہے اور نہ ہی دوسرے امراض کا- بلوچستان میں ماہر یا اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی کمی کے باعث ناتجربہ کار ڈاکٹرز ڈسپینسر اور عطائی ڈاکٹرز لوگوں کو علاج کی بجائے مختلف خطرناک امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بن رہے ہیں بلوچستان ملک کا واحد تجربہ گاہ ہے۔

جہاں نہ تو اہلیت کا معیار ہے اور نہ ہی قابلیت کا جس کا جو جی چاہے بورڈ پر لکھے اور لوگوں کا علاج کرے۔ بلوچستان کے لوگ سادہ اور کم علم ہونے کے باعث ایسے قصائی نما ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن کا اصل مقصد پیسے کمانے اور موت بانٹناہے کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے جہاں چالیس سے زائد پرائیویٹ ہسپتال اور سینٹر قائم ہیں لیکن یہ ہسپتال دراصل پیسے بنانے کی فیکٹریاں ہیں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے باعث صوبے کے غریب اور مفلوک الحال عوام اپنا علاج ان پرائیویٹ ہسپتالوں سے کرانے پر مجبور ہیں۔

لیکن بلوچستان کی حکومت ڈاکٹروں کے تمام ناز نخرے برداشت کرنے کے باوجود عوام کو مفت علاج کی وہ سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے جو ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔بلوچستان میں کورونا وائرس نے بھی پاناما لیکس کی طرح صوبے کے تمام ہسپتالوں کی حالت زار،,علاج معالجہ کی سہولیات اور عوام کو مفت علاج کرنے کا پول ہی کھول دیا۔عوام کو اب پتا چلا ہے کہ صوبے میں وینٹی لیٹرز کی سہولیات تک نہیں وہاں کیا علاج یا جان بچانے کی امید کی جا سکتی ہے بلوچستان میں آج تک باہر سے سیاسی قیادت تو نہیں آئی ہے صوبے ہی کے لوگ جو ہمیشہ منتخب ہوتے رہے ہیں یا یوں کہیں کہ ان کی نسل در نسل عوام پر حکومت کرنے یا وزرات اعلی ٰکے منصب پر فائز ہوتے رہے ہیں وہ اپنا علاج صوبہ سے باہر کراتے رہے ہیں۔

اگر اس طرح کی صوبائی حکومت قانون سازی کرے کہ ہر منتخب نمائندہ اپنا علاج اپنے حلقے کے ہسپتال سے کرائے تو ہو سکتا ہے کہ ان لیڈران کو ان ہسپتالوں کی حقیقت اور حالت زار کا علم ہو اور پھر خود اوراپنے بچوں کی خاطر صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں کو بہتر بنا کر عوام کو تمام تر علاج کی سہولیات فراہم کر سکیں لیکن اس طرح کیلئے ہمیں مزید سو سال انتظار کرنا ہوگا۔موجودہ حکومت کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان کو اب بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کیا اب صوبائی حکومت اپنی ترجیحات کو صرف صحت،تعلیم، اریگیشن، پی ایچ ای، مواصلات و تعمیرات تک محدود کرکے بلوچستان بھر میں معیاری اور بہترین لیول کے ہسپتال بنانے کی منصوبہ بندی کا آغاز کریگی؟ جہاں عوام کو تمام تر علاج معالجے کی سہولیات فراہم ہو سکیں۔

اور کسی بھی مریض کو کوئٹہ یا لاڑکانہ سندھ ریفر کرنے کی نوبت ہرگز نہ آئے اور ساتھ ہی اس طرح کی حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ تمام امراض کے اسپیشلسٹس تمام ہسپتالوں میں مقرر کیے جائیں تاکہ ہر مریض بخوشی اپنا علاج کراسکے اور ان ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی کارگردگی سے بھی مطمئن ہوں۔ بلوچستان میں اب وقت آگیا ہے کہ صوبے بھر کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں تمام شعبہ جات کے ماہراور اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کا تقرر کیا جائے اور تمام تر جدید سہولیات فراہم کرکے ایسے ہسپتال بنائے جائیں جہاں تمام سہولیات میسر ہوں اور صوبے میں جب صحت عامہ کی سہولیات ہونگے تو پھر ترقی کا مزہ بھی آئے گا۔

کیا ترقی کے ثمرات سے صوبے کے بیمار عوام مستفید ہو سکیں گے عوام کو پہلی ترجیح میں صحت عامہ کی سہولیات، معیاری تعلیم،صاف پینے کے پانی کی فراہمی اور دورویہ روڈز کی فراہمی ہونی چاہئے تاکہ ہمارا بلوچستان صحت مند بلوچستان ہونے کے ساتھ ساتھ لکھا پڑھا اور تندرست و توانا بلوچستان کا بھی خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔یہ اب ہماری سیاسی قیادت، حزب اقتدار اور حزب اختلاف سمیت سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ بلوچستان کو کس طرح کا بلوچستان بنانا چاہتے ہیں ستر سالوں والا بلوچستان کے عوام اب بیمار سوچوں سے نکل کر اپنے قوم،صوبہ اور نونہالوں کے مستقبل کی صف بندی کرتے ہوئے جدید ترقی کا تعین کرنا ہوگا ورنہ بلوچستانی عوام ترقی کے بجائے کورونا جیسے بیماریوں کا شکار ہوکر قبرستانوں پرصرف ماتم اور افسوس کرتے رہیں گے۔