|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2020

نور اپنے شوہر جمیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اس بار سالگرہ پر اسے صرف سونے کا ہار ہی تحفے میں دے، بالکل ویسا ہی جیسا اس کی ہمسائی کو شوہر سے ملا ہے ورنہ وہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جائے گی۔ نور کو شکوہ تھا کہ جمیل کو اْس سے ذرا بھی محبت نہیں، کبھی مہنگا اور قیمتی تحفہ نہیں دیا جیسے رضیہ (ہمسائی) کا شوہر اسے اکثر دیتا رہتا ہے۔
جمیل اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، نور سے شدید محبت بھی کرتا تھا لیکن وہ تھی کہ محبت کو چیزوں میں تولنے لگی تھی۔ روز روز کے جھگڑے، نت نئے مطالبوں کے بعد اب گھر چھوڑنے کی دھمکی پر جمیل بیوی کے آگے ہار سا گیا۔

سخت مہنگائی کے دور میں بچت تو کچھ خاص تھی نہیں، نہ کوئی جدی پشتی رئیس تھا لہذا اْس نے آخری کوشش کے طور پر چند قابل اعتماد دوستوں سے ادھار لینے کی کوشش کی مگر بے سود، سب کے اپنے مالی حالات پتلے تھے، اسے کیا دیتے۔ بیوی پر جمیل جان چھڑکتا تھا، اب اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا سوائے کہ اپنا گردہ بیچ دیتا۔نور سونے کا چمکتا دمکتا ہار پا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ سہیلیوں کو گھر جا جا کر دکھا رہی تھی تو کچھ ہمسائیاں خود ہار دیکھنے نور کے پاس آ جاتیں۔ لیکن رضیہ کیلئے نور خاص اہتمام کے ساتھ تیار ہوئی، ہار پہنا اور اس کے گھر پہنچ گئی۔

نور کو رضیہ محلے میں سب سے زیادہ پسند تھی کیونکہ اسکی ہر چیز ہی شاندار تھی۔ اسکا اوڑھنا بچھونا، لباس، اٹھنا بیٹھنا، دلفریت انداز گفتگو، گھر کی سجاوٹ سب ہی نور کو بھاتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی کوشش میں لگی رہتی کہ رضیہ جیسی لگے، اسکے لیے وہ شوہر کے گردے کی شکل میں کتنی بھاری قیمت ادا کر چکی تھی، نور کو اندازہ ہی نہیں تھا۔نور جب رضیہ کے گھر پہنچی تو دروازہ کھلا پایا، وہ ایسے ہی اندر داخل ہوئی تو اس کے کانوں میں چیخنے چلانے اور تھپڑ، گھونسے مارنے کی آوازیں پڑیں۔ وہ فورا ًاندر گئی تو رضیہ فرش پر گری بلبلا رہی تھی۔ اتنے میں مین گیٹ زور سے بند ہونے کی آواز آئی، نور کو اندازہ ہوا کہ رضیہ کا شوہر اس کے آنے کے سبب مارپیٹ ادھوری چھوڑ کر جا چکا تھا۔

اسکی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔ چہرے پر جگہ جگہ تشدد کے نشان تھے۔ رضیہ نے نور کو دیکھا تو اس سے لپٹ کر پہلے تو سسکی، صبر نہ آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نور کو رضیہ کے بہتے آنسوؤں نے ساری صورتحال سمجھا دی، چمکتی دمکتی زندگی کے پیچھے چھپی بھیانک حقیقت نے اس کا دل لرزا دیا تھا۔دراصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ اسی لئے ہمیں دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کی اتنی اچھی زندگی کیوں ہے اور میری کیوں نہیں؟ اس کو تو وہ سب مل گیا جو میرے پاس نہیں۔ وہ یقینا بہت خوش قسمت ہے جبکہ ساری محرومیاں میرے ہی دامن میں ڈال دی گئی ہیں۔

میرے پاس گاڑی نہیں، بنگلہ نہیں، فلاں چیز نہیں، میری تو قسمت پھوٹی ہوئی ہے۔مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کیا دوسرے کو بھی ان سب چیزوں کی خواہش ہےِ، ہو سکتا ہے وہ اسکے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتی ہوں اور وہ کسی اور شے کی تلاش میں سرگرداں ہو جو ہمارے پاس ہے۔ ہمیں ظاہری طور پر دوسرے کی نعمت نظر آ رہی ہوتی ہے مگر وہ کس مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے اس کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتا۔اکثر ہمارے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی آزمائشیں نظر آرہی ہوتی ہیں مگر ان نعمتوں پر نظر نہیں ڈالتے جو اللہ پاک نے ہمیں عطا کی ہیں۔

ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہے بس۔ بات یہ ہے کہ اپنی چاردیواری میں، مَیں بہت دکھی تھا یعنی کہ جیسے ساری دنیا کے پہاڑ مجھ پر ہی گرے ہوں۔ قریب تھا کہ بغاوت پر اتر آتا مگر جب چار دیواری سے نکل کر مخلوق کا حال پوچھا تو میرا دکھ تو کہیں ہوا ہو گیا۔ نہ جانے دنیا کیسے کیسے حالات میں جی رہی ہے اور پھر بھی شکر ادا کرتی ہے۔سیانے کہتے ہیں بیٹا، جب حالات کی تلخی زیادہ تنگ کرے تو کسی ہسپتال کا دورہ کرو، قبرستان چلے جاؤ، وہاں لوگوں کو اذیت اور خود کو آرام میں دیکھو گے تو سب سمجھ جاؤ گے۔ خودبخود شکر کرنا سیکھ جاؤ گے۔

ہم اپنی اتنی پیاری زندگی ایسے ہی بس، مقابلہ بازی میں ضائع کر دیتے ہیں۔ فلاں کے پاس یہ ہے تو میرے پاس کیوں نہیں۔ حالانکہ اس کے بغیر بھی زندگی آرام سے گزر سکتی ہے۔ اصل میں جب ہماری شخصیت اندر سے خالی ہوتی ہے تو پھر ہم اسے ظاہری اور مادی چیزوں سے سجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں جانے کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے اگر ہم تھوڑا سا بھی کام اپنے باطن پر کریں تو ہمیں ان جعلی اسباب کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تْو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن