|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2020

ٹھیک آج سے چھ ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھیں وہ چائنہ کی ہی چیزیں تھیں حتیٰ کہ پاکستانی دکاندار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے کہ یہ چائنہ کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنہ سے آئے ہوئے کرونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگیں۔

چین دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر دو نمبر چیزیں بنانے کے سب سے بڑے بڑے کارخانے موجود ہیں۔اس وقت پوری دنیا چین کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ جلد کرونا وائرس کی ویکسین بنا کر ہم سب کو دے گا اور ہماری سانسیں نہیں رکیں گی۔۔حتیٰ کہ چین نے ویکسین بنا کر پاکستانی عوام پر تجربہ کرنے کا سوچ بھی لیا ہے۔ چین دنیا میں ناکارہ ترین چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں پر ہر چیز دو سے تین مرتبہ استعمال میں دوبارہ لائی جاتی ہے۔ایک شیونگ بلیڈ سے لیکر چمچے تک۔۔

آج کل پوری دنیا میں یہ بتایا جارہا ہے کہ کرونا وائرس چمگادڑ کے سوپ کھانے سے پھیلا ہے سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی سارا سال مرغی کا سوپ کھاتے ہیں ان کا کھانسی اور زکام تک ختم ہو جاتا ہے اور تو اور سوپ کھانے سے کبھی الرجی تک ہوا نہیں ہے۔ یہ وہی چائنہ ہے جس کے بارے حبیب جالب نے خوبصورت نظم لکھا تھاجو پاکستان میں اس وقت تک بہت مقبول ہے۔

چین اپنا یار ہے اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام کیا بنیں گے حکمراں
تو ”یقیں ” ہے یہ ”گماں ” اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا میں نے اس سے یہ کہا

یہ وہ نظم ہے جسے ہر پاکستانی نے ایک مرتبہ ضرور سنا ہوگا۔ مگر آج کل سب اس نظم کو بھول گئے ہیں کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ کرونا وائرس کو چین نے ختم کر دیا ہے اور وہی کرونا وائرس ہمارے پاس پھلنے پھولنے لگا ہے۔ آج تک کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کرونا وائرس پاکستانیوں کے جسم میں کیسے منتقل ہوا اور پہلا کیس کس کا رپورٹ ہوا ہے اور جس کو کرونا وائرس ہوا ہے اس کے وائرس کس شخص سے اس شخص میں منتقل ہوئے ہیں۔ اگر اس ملک کے کسی شخص کو کچھ پتا ہے تو وہ لاک ڈاؤن کا پتا ہے۔لاک ڈاؤن سے شہر شہر قریہ قریہ بند کرنے کا افسوس ہوتا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے ایٹم بم بنایا ہے۔

مگر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ معلوم نہ کر سکے ہیں۔ آخر پاکستانی سائنسدانوں نے اس کرونا وائرس کے پھیلاؤ پہ کبھی تحقیق کیوں نہیں کی ہے۔ جب پاکستان میں کسی بچے کو پولیو وائرس ہوتا ہے تو اس کا اسٹول لیا جاتا ہے۔اور پھر وائرس کی تصدیق کے ساتھ یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وائرس کہاں سے بچے کو لگا ہے۔ مگر کرونا وائرس ایسا وائرس ہے جس کے لئے ہم صرف ہاتھ پہ ہاتھ صاف کیے ہوئے ہیں آخر کیوں؟

کہیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہاتھوں کو صاف کرکے ماسک پہن کر اور ٹھنڈی ٹھار سینیٹائزر استعمال کرکے ہم لوگ اس بیماری سے بچ سکیں گے۔ بالکل یہ طریقہ اس ملک میں غلط چل رہا ہے کبھی سوچا ہے کہ جو سامان ہمیں کرونا وائرس زدہ ملک چائنہ سے ملا ہے وہ سامان تو کرونا زدہ نہیں ہے کبھی اس سامان کی کوالٹی کسی بڑے ادارے نے چیک کی ہے۔ اگر کی ہے تو اس کی رپورٹ کہاں ہے عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا۔

اس وقت کرونا وائرس کا مال جو چائنہ سے پاکستان میں آیا بڑے دھوم دھام سے فروخت ہو رہا ہے اور جتنا مال آیا ہے اس روز سے آج تک پاکستان میں کرونا وائرس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے آخر کیوں؟ اور تو اور اعلیٰ شخصیات بھی اس وائرس کی زد میں آ چکے ہیں اور ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ بھی اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر حضرات بھی اس وائرس سے بچ نہیں سکے ہیں آخر کیوں؟

پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر وہ لوگ ہیں جو کرونا وائرس زدہ شخص سے بھی بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں مگر پھر بھی کرونا وائرس نے ان کو گلے لگا لیا ہے آخر کیوں؟ کہیں ان کو ملنے والا سامان چائنہ کا مال کرونا زدہ تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس وقت لوگ کیوں کرونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں؟یہ بات سوچنے کی ہے اور اس پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

کرونا وائرس ایک نیا وائرس ضرور ہے مگر پاکستان میں یہ وائرس پرانے لوگوں کو مار رہا ہے ہر کھانسی زکام بخار کرونا وائرس نہیں ہوتا مگر علامات کرونا وائرس کے ضرور ہیں۔پاکستانی وہ قوم ہے جو بیس سال سے زائد عرصے میں پولیو کو ختم نہیں کر سکا ہے تو پھر کرونا وائرس کو کیسے ختم کرے گا کرونا وائرس اگر خود بخود ختم ہو جائے تو ہمارے لیے مال غنیمت ہوگا۔

پاکستان میڈیکل کے شعبے میں کئی ممالک سے بہت ترقی یافتہ ملک ہے جس نے جگر ٹرانسپلانٹ سے لیکر ہڈیوں کے ڈھانچوں کو ایسے جوڑا ہے جیسے ہڈیاں ٹوٹی ہی نہیں تھیں۔ خدارا چائنہ کا مال جو ملا ہے یا مل رہا ہے اس کا چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ ٹیسٹ بھی ضرور کریں تاکہ ہمیں بھروسہ ہو کہ چائنہ کا مال اچھا ہے یا برا ہے یا ناکارہ مال ہے یا استعمال شدہ مال ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ چائنہ دنیا میں اپنے معاشی ترقی کے لیے اپنی راہ ہموار کر رہا ہے۔

ووہان چائنہ سے پھیلنے والی وبا کرونا وائرس جس نے دنیا میں دھوم مچا دی ہے سب لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور بیمار کر دیا ہے۔وہ دسمبر کا مہینہ تھا جب پاکستان میں سخت سردی کا راج تھا اس وقت یہ وبا چائنہ میں نمودار ہوا اور اپریل تک دنیا کے دو سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔اور اس ماہ میں چائنہ خود اس وبا سے پاک صاف ہوگیا۔اس وقت دنیا کی آنکھیں چین کی طرف ہیں اس وقت چین دنیا کے ہر ملک میں کرونا وائرس کا سامان پہنچانے میں لگا ہوا ہے چین ترقی کا سفر طے کر رہا ہے دنیا تنزلی کا سفر طے کرنے میں مصروف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر برائی چین میں ہوتی ہے ہر چیز ہضم کر جاتے ہیں چاہے لکڑ ہو یا پتھر ہو۔