|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2020

نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی کے حامل ڈویژنوں میں سے ایک ہے جس میں پانچ اضلاع، نصیرآباد، جعفر آباد، صحبت پور،جھل مگسی اور کچھی شامل ہیں۔ان اضلاع میں نصیرآباد اور کچھی دو ایسے اضلاع ہیں جہاں کبھی کبھی یا کسی طویل وقفے کے بعد کسی سیاسی حریف کو کامیابی ملتی ہے اور کم از کم پانچ سال صرف ان ہونے والی تبدیلی پر سیاست ہوتی رہتی ہے تاہم جعفر آباد،جھل مگسی اور صحبت پور ایسے انتخابی حلقے ہیں جہاں موروثی سیاست یا سیاسی جاگیر دار یا قبائلی نشست سمجھے جا تے ہیں۔ اوستہ محمد کی نشست پر ہمیشہ میر جان جمالی صاحب وزیر اعلیٰ، اسپیکر وزیر تک منتخب ہوتے رہے ہیں۔

اوستہ محمد یقینا دیگر علاقوں کیلئے شاید ترقی کے حوالے سے مثالی ہو لیکن حلقے کے لوگ ترقی کے نام کو ترس رہے ہیں، پورے حلقے میں روڈ انفرا اسٹرکچر کی صورتحال تباہ ہے۔اوستہ محمد شہر کی حالت قابل رحم ہے جہاں کی گلیاں اور سیوریج نظام روز شہریوں کا منہ چڑاتے رہتے ہیں جہاں مٹی،دھول روزانہ رقص کرکے عوام کو صحت مند تفریح اور ماحول فراہم کر رہی ہوگی۔ اوستہ محمد شہر میں ایک میونسپل کمیٹی بھی ہے جس کے کروڑوں روپے کے فنڈز کا کبھی بھی آڈٹ نہ ہوا ہوگا اور نہ ہی کوئی ادارہ ان سے پوچھنے کی طاقت رکھ سکتا ہے بیچارے عوام کو تو کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔

آپ کو اگر ملک بھر میں ووٹ کی طاقت کا اندازہ لگا ناہو یا ووٹ کی عزت کو آزمانا ہو تو نصیرآباد ڈویژن کی ایک بار ضرور سیر کریں اور ان پانچ اضلاع کے سات صوبائی حلقوں اور دو قومی حلقوں کی بھی ترقی کا جائزہ لیں اور عوام کے معیار زندگی کا بھی آپ جائزہ لیں کہ عوام میں کس قدر تبدیلی واقع ہو گئی ہے،عوام کس طرح اپنے نمائندوں کے ترقیاتی ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ کیا اوستہ محمد جوکہ تاریخی شہر ہے اس میں ایک بہترین ہسپتال ہے جہاں تمام مریضوں کا علاج کیا جاتا ہو جہاں لوگوں کو ادویات مفت فراہم ہوتے ہوں،اور کسی بھی مریض کا میرٹ پر علاج کیا جاتا ہو اور کسی کو بھی مزید علاج کی غرض سے دوسرے شہروں کو ریفر نہ کیا جاتا ہو۔

جہاں کی میونسپل کمیٹی کی جانب سے تمام شہری گلیاں پختہ اور ٹف ٹائل سے بنائے گئے ہوں،جہاں روڈ پر دھول کا نام و نشان تک نہ ہو، روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی اور پانی سے روڈ کی دھلائی کی جاتی ہو اور عوام کو میرٹ پر ملازمتیں ملتی ہوں، کسی بھی سیاسی حریف کے ساتھ انتقامی کاروائی نہ کی جاتی ہو، کسی پر پولیس کے ذریعے ناجائز اور جھوٹی ایف آئی آر تک نہ کاٹی جاتی ہو، جہاں تعلیمی اداروں کا جال ہو وہاں ہر عام و خاص معیاری تعلیم سے مستفید ہو رہا ہو۔ لیکن مجھے یا عوام کو یہ تمام سہولیات یا تو خواب، وژن یا مستقل قریب کے سیاسی نعرہ ہونے کا بہترین سلوگن اور امید محسوس ہو رہے ہیں۔ یقینا امید پر ہی دنیا اور سیاست قائم ہے۔ جعفرآباد کا دوسرا حلقہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور ان کے منتخب چھوٹے فرزند ارجمند میر عمر خان جمالی کے زیر اثر ہے۔

میر عمر خان جمالی یقینا نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور سیاست کے تمام داؤ بیچ اپنے والد سے سیکھ چکے ہیں۔اب موجودہ صوبائی حکومت میں وزیر بین الصوبائی رابطہ اور ٹرانسپورٹ ہیں، اسی نشست پر میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہو چکے ہیں اور اس کے بعد ان کے اپنے کزن میر تاج محمد خان جمالی بھی اسی حلقے سے کامیاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے تھے۔ جعفر آباد کے دونوں حلقے جمالی خاندان کے موروثی حلقے ہیں ان سے جمالی خاندان یعنی میر ظفر اللہ خان جمالی کی جانب سے نامزد کرنے والے ہی ہر دفعہ منتخب ہوکر اپنے علاقے کی ترقی کے عظیم مشن کو سرانجام دیتے ہیں۔ ڈیرہ اللہ یار جعفر آباد کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہے ڈیراللہ یارشہر بھی بڑی آبادی کے حامل شہروں میں سے ایک ہے جہاں میونسپل کمیٹی شہر کی ترقی کیلئے کوشاں ہے۔

یہ حلقہ بھی بلوچستان کے پسماندہ حلقوں میں سے ایک ہے جہاں ترقی کا نام و نشان تک نہیں،یہاں کے عوام صاف پینے کے پانی، نکاسی آپ سمیت دیگر جدید سہولیات سے محروم ہیں لیکن لوگوں کی خاموشی طاقتور سیاسی قائدین کی مخالفت،اپنے اور اپنے خلاف موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور مختلف جھوٹے مقدمات ان کے مقدر بنائے جاتے ہیں تاہم ان حلقوں میں شاید بہت کم لوگوں نے ہی علاقے کی پسماندگی اور عدم ترقی پر لب کشائی کی ہو، بے ادبی کوئی بھی نہیں کر سکتا اور ان سیاسی اشرافیہ کی مخالفت سیاسی اختلاف نہیں بلکہ بے ادبی اور گستاخی کے مترادف ہے۔ جعفر آباد سے سابق نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کے دور میں الگ ضلع بننے والا صحبت پور بھی موروثی سیاست، جاگیردارانہ سوچ اور اس پر ایک ہی قبیلہ کا دسترس ہے۔

جن کو میر ظہور خان کھوسہ نامزد کرینگے وہی کامیاب ہوگا۔ صحبت پور میں آپ کو کسی بھی حوالے سے حقیقی معنوں میں ترقی نظر نہیں آئے گی تاہم یہ ضلع تو نیا بنا ہوا ہے لیکن یہ ہمیشہ ترقیاتی عمل میں نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ صحبت پور سے میر سلیم خان کھوسہ منتخب ہوئے ہیں جوکہ موجودہ حکومت میں اہم وزارت محکمہ ریونیو ان کے سپرد ہے تاہم صحبت پور کو کسی بھی حوالے سے ترقی یافتہ اضلاع نہیں کہا جا سکتا۔ صحبت پور شہر کی ترقی کیلئے میونسپل کمیٹی کے کروڑوں روپے سالانہ ترقی پرخرچ کئے جا رہے ہیں۔ صحبت پور محدود آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود ترقی کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو رہا ، صحبت پور شہر کم جبکہ دیہات زیادہ لگتا ہے تاہم اس بار کچھ سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ ڈیرہ مراد جمالی نصیرآباد کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے جو ہیڈ کوارٹر کم بلکہ کچی آبادی زیادہ لگتی ہے۔

یا یوں کہا جائے کہ ڈیرہ مراد جمالی شایدوہ بدقسمت شہر ہے جہاں پی پی پی کے میر محمد صادق عمرانی کے دور میں ترقیاتی کام ہوئے، روڈز بنے گلیاں پختہ ہوئیں لیکن بہترین اور معیاری کام نہ ہونے کے باعث ان روڈز اور منصوبوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ ڈیرہ مراد جمالی میں پینے کے پانی کاسب سے بڑا مسئلہ تھا جس پر میر محمد صادق عمرانی نے شرقی اور انڈسٹریل ایریا میں واٹر سپلائی کے منصوبے دیکر شہر کے پانی کا مسئلہ حل کر دیا تھا۔ اسکے بعد میر عبدالماجد ابڑو نے بھی شہر میں چند روڈز کے منصوبے اور واٹر سپلائی کی اسکیموں پر زیادہ توجہ دی۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے ہی دور میں ڈیرہ مراد جمالی میں حقیقی معنوں میں ترقی نظر آئی،پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کی بدولت شہر میں سرکٹ ہاؤس، لائبریری،پارک،فٹ بال اسٹیڈیم، اسٹریٹ لائٹس، روڈز،شرقی نالہ کو بنایا گیا تاہم وہ بھی ناقص پلاننگ اور جلد بازی کی وجہ سے تمام روڈز شرقی نالہ کا نام و نشان تک نہیں رہا لیکن ابھی تک ان روڈز کے آثار موجود ہیں۔ڈیرہ مراد جمالی کے موجودہ ایم پی اے میر سکندر خان عمرانی نے بھی شہر کے بنیادی مسئلہ واٹر سپلائی کو پہلی ترجیح دی ہے اور ساتھ ہی شرقی اورغربی کیلئے دو الگ الگ میگا منصوبے دیئے ہیں جن پر کام جاری ہے جبکہ چھتر کیلئے میگا منصوبہ روڈ کی تعمیر پر بھی کام جاری ہے حلقے میں لنک روڈ بھی بنائے جا رہے ہیں۔

لیکن ڈیرہ مراد جمالی شہر کی پسماندگی،عدم ترقی اور اربن شہر نہ بننے کی اصل وجہ شہر کے لوگوں کو مالکانہ حقوق غالب 45 سال سے تاحال نہیں مل رہا ہے۔ درجنوں دفعہ پالیسیاں بنائی گئیں۔ نئے نئے ریٹس مقرر ہوئے لیکن تاحال شہر کی الاٹمنٹ کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میونسپل کمیٹی کا کردار بھی شہر کی ترقی کے بجائے مزید خستہ حالی کا موجب بن رہا ہے۔ بی ڈی اے کی جانب سے بنائے گئے ادھورے نکاسی آب منصوبہ کو تاحال نہیں سنبھال رہی ہے جس کے باعث تمام روڈ تباہ ہو چکی ہیں کروڑوں روپے کے بجٹ سے بھی میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی جانب سے ترقی نظر تو نہیں آ رہی تاہم ترقیاتی فنڈز مسلسل خرچ ہو رہے ہیں۔ کیا ان ترقیاتی مد میں ملنے والے رقم کی کوئی مانیٹرنگ یاپوچھ گچھ ہوتی ہوگی یا پھر سب چل جاتا ہے۔ نصیرآباد کا دوسرا بڑا حلقہ تمبو کا ہے جہاں سے منتخب ایم پی اے حاجی محمد خان لہڑی صوبائی کابینہ میں مشیر محنت و افرادی قوت ہیں۔

میرے خیال میں پورے ڈویژن میں دو حلقے ہیں جہاں کچھ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے اس میں تمبو کا حلقہ بھی شامل ہے۔تمبو میں سب سے زیادہ روڈ انفراسٹیکچرز پر کام کیا جا رہا ہے سکول بھی قائم کیئے جا رہے ہیں، 93 کروڑ روپے کی کثیر لاگت سے ڈیرہ مراد جمالی ٹو فیض آباد میگا منصوبہ بھی بن رہا ہے تاہم تمبو وسیع و عریض اور بڑا حلقہ ہونے کے باوجود ان میں کوئی ٹاؤن کمیٹی نہیں ہے۔ منجھو شوری تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے اسے اور غفور آباد سمیت ضلع کے دیگر علاقوں میں تحصیل وائز یعنی بابا کوٹ اور تمبو تحصیل میں ٹاؤن کمیٹی بنائی جا سکتی ہے پورے حلقے میں بوائز اور گرلز کالج تک نہیں۔جھل مگسی بھی سیاسی حوالے سے خوش قسمت اور ترقی کے حوالے سے انتہائی بدقسمت ہے۔

اس حلقے سے وزیر اعلیٰ اور گورنر تک منتخب ہوئے ہیں لیکن پورا علاقہ قرون اولیٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔ جھل مگسی کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر گنداواہ بھی ترقی کے ثمرات سے آج تک مستفید نہ ہو سکا۔ تاہم یہ قبائلی علاقہ ہے جہاں کوئی کسی کے خلاف بات تک نہیں کر سکتا۔ ڈویژن کے پانچوں حلقے کچھی شوران کچھ ڈھاڈر اور کولپور تک ہیں ان سے منتخب ہونے والے رند قبیلے کے سربراہ موجودہ وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کامیاب ہوئے ہیں اس سے قبل اسی نشست پر بی اے پی کے رہنماء میر عاصم کرد گیلو کامیاب ہو ئے تھے، یہ حلقہ بھی پسماندہ ضرور ہے لیکن اس میں روڈز اور دیگر ترقیاتی منصوبے بھی ہیں پورے حلقے میں دو کالج ہیں زرعی علاقہ ہے تاہم قابلیت کا عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی کافی شعور ہے۔

لیکن اس کے باوجود اگر ترقی کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو نصیرآباد ڈویژن اب تک پسماندہ ہے جہاں وزیر اعظم،نگران وزیر اعظم پانچ مرتبہ وزارت اعلیٰ،گورنر شپ سمیت وفاقی اور صوبائی وزارتیں ملنے کے باوجود ڈویژن میں کوئی میڈیکل کالج نہیں،لاء کالج نہیں،کسی یونیورسٹی کا نہ تو کیمپس ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے تاہم دو سال قبل شدید عوامی مطالبے پر ایک زرعی کالج قائم کیا گیا ہے۔ پورے ڈویژن میں کوئی ریذیڈنشل اسکول کالج نہیں، پورے ڈویژن میں ایک ہی کیڈٹ کالج جعفر آباد کیڈٹ کالج ہے۔ ڈویژن کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر شہر کم کچی آبادی اور گندگی کے ڈھیر معلوم ہوتے ہیں۔

پورے ڈویژن میں ایک بھی بہترین ہسپتال نہیں جہاں عوام کا بہتر علاج معالجہ ہو سکے۔ پورے ڈویژن میں تمام شعبوں کے ڈاکٹر تک ہسپتالوں میں موجود نہیں لیکن پھر بھی ہم جیسے خوش نصیب سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے ترقی اور ریکارڈ ترقی کا نعرہ لگاتے ہیں اور کیونکہ سیاسی حلقے کے ایم پی اے کے سامنے حلقے کی پسماندگی کا ذکر آ بیل مجھے مارنے کے مترادف ہے تاہم عوام کے حوصلے کو بھی داد دیئے بغیر رہ نہیں سکتا کہ وہ ہر وقت ہر نمائندے کیلئے زندہ باد اور بلے بلے کا نعرہ لگا کر خود ہی پسماندگی کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔

مجھے تعجب نہیں کہ چالیس سے پچاس کروڑ روپے سالانہ ترقیاتی فنڈز کا کوئی آڈٹ بھی ہوتا ہے، کیا بلوچستان میں نیب کا دسترس نہیں،کیا بلوچستان کے منصوبوں کی مانیٹرنگ کرنا گناہ ہے یا بلوچستان کا قبائلی نظام اس میں حائل ہے۔ اب عوام کو اپنے لئے صوبے کی ترقی کیلئے جاگنا ہو گا۔ اپنے علاقے کی ترقی کیلئے منتخب نمائندوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں اجتماعی دیرپا ٹھوس منصوبوں کے قیام پر توجہ دیں تاکہ بلوچستان کے گرین بیلٹ میں حقیقی معنوں میں ترقی نظر آ سکے۔