کورونا کا وبائی مرض 26 فروری کو پاکستان آنے کے بعد اب تک اس موزی مرض میں ملک کے 34325 شہری مبتلا ہو چکے ہیں جن میں 8555 شہری صحتیاب اور 737 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس وبائی مرض نے جہاں پوری دنیا کے معاشی نظام کو لاک ڈاؤن پر مجبور کیا اور دنیا کے بڑے بڑے ملک اورشہر لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اور کاروبار سے الگ ہو گئے۔ انہی بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہر وں کولاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوئے۔ تمام سیکریڑیٹ، سرکاری دفاتر، فیکٹریاں، کارخانے اور کاروبار بند کر دیئے گئے اور اب 09 مئی کو وفاقی حکومت نے کنسٹرکشن کی صنعت سمیت بہت سے کاروبار، تجارت اور دوکانوں کو SOPs کے شرائط کے ساتھ کھول دیا ہے۔
کورونا کے وبائی مرض کے دوران پورے ملک کے سرکاری اداروں کے دفاترمیں آفیسروں اور ملازمین کو گھروں پر رہنے کی ہدایات جاری کی گئی اور جس سرکاری دفتر میں بھی کوئی شہری کام کیلئے جاتا ہے تو انھیں بتادیا جاتا ہے کہ کورونا کے وبائی مرض کی وجہ سے حاضری کم ہے اور حفاظتی اقدامات کے طور پر سرکاری آفیسروں اور ملازمین دفتر میں موجود نہیں ہیں۔ کورونا کے وبائی مرض کے دوران فرنٹ لائن پر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف ایسا فورس ہے جنہوں نے اس وبائی مرض کے دوران حفاظتی آلات نہ ہونے کے باوجود اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کیا۔ اسی لئے پورے ملک میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو سلوٹ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں اضافی تنخواہ بطور اعزازیہ اور دیگر الاؤنسز دیئے گئے۔
ڈاکٹروں نے غیر مطمئن حالات میں جلسے جلوس کئے اور انھیں صوبہ بلوچستان میں مار پڑی اور اسی طرح کا رویہ ان کے ساتھ دوسرے صوبوں میں بھی ہوا اور بالآخر انھیں حفاظتی سامان کی فراہمی شروع ہوئی۔ ملک میں چنددیگر ادارے بھی ایسے ہیں جن کے آفیسروں اور اہلکاروں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر عوام کی خدمات جاری رکھیں اور ان اداروں میں سب سے زیادہ ذمہ دارانہ کردار الیکٹرک پاور کمپنیوں کے ملازمین کا رہا ہے۔جن کے پاس حفاظتی آلات نہ ہونے کے باوجود انہوں نے آج تک پورے ملک کے عوام کیلئے24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے اور اب تک دسیوں ملازمین کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں اور کئی کارکن اس دوران بغیر ٹیسٹنگ کے موت کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ لاہور، پشاور، سکھر اور دیگر کمپنیوں میں بجلی کا کام کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے بجلی کے حادثات سے بھی نوجوان اہلکاران عوام کی اس رمضان المبارک کے مہینے اور کورونا کے وبائی مرض کے دوران خدمات سرانجام دیتے ہوئے جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ واپڈا اتھارٹی نے واپڈا کے ملازمین کو کرونا کے وبائی مرض میں ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کے جذبے کو سراہتے ہوئے ان کے کام کو تسلیم کیا اور واپڈا ملازمین کو ایک مہینے کا اعزازیہ عید الفطر کے موقع پر دینے کے احکامات جاری کئے۔ اس کے علاوہ صدارتی سیکریٹریٹ میں ڈیوٹیوں پر نہ آنے والوں کی ایک سمری منظر عام پر آچکی ہیں اور اس سمری میں صدر مملکت عارف علوی کو بتایا گیا ہے کہ جو ملازمین کورونا کے وبائی مرض کے دوران اپنی ڈیوٹیوں پر نہیں آئے ہیں۔
اور وہ گھر میں آئسولیٹ ہوئے ہیں ان کے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ وہ سرکاری ڈیوٹی کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنے بچوں کیلئے روزی کماتے تھے۔ اب اس وبائی مرض کے دوران انہوں نے پارٹ ٹائم کام نہیں کیا ہے اور ان کی آمدنی کم ہو گئی ہے اس لئے عید الفطر کے موقع پر اعزازیہ دینے سے ان کے مسائل حل ہوں گے اور صدر مملکت نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدارتی سیکریٹریٹ کے کام نہ کرنے والے ملازمین کو عید الفطرکے موقع پر اعزازیہ کی منظوری دی ہے۔
اسی طرح نیشنل بینک کا کوئی آفیسر یا ملازم 40 یا 45 سینٹی گریڈ میں دھوپ کی تپش کو دیکھے بغیر اپنے کمرے کے اندر کام کرنے پر بھی عید الفطر کے اعزازیے کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں اور وبائی مرض کے دوران ان کے بھی آدھے ملازمین گھروں پر رہے ہیں اور آدھوں نے اپنے سرکاری فرائض کو جاری رکھا۔ سب سے بڑھ کر ملک میں انصاف دینے والے جوڈیشری نے بھی کئی مہینے عدالتوں میں کام نہ ہونے کے باوجود اسٹاف کیلئے عید الفطر کے اعزازیے کی فراخدلانہ منظوری دے دی ہیں۔ جو ڈیشری کے معزز جج صاحبان کی تنخواہیں اور الاؤنسز تو 10 لاکھ روپے سے زیاد ہ ہیں۔
اور ان کے کلرک،ڈرائیوراور چپڑاسی بھی عام سول محکموں کے ملازمین سے ڈبل تنخواہیں اور الاؤنسز لیتے ہیں ان کے مسائل حل ہونے سے کسی کو بھی کوئی خفگی نہیں ہے لیکن اس ریاست میں انصاف کے مطابق فیصلے ہونے کی توقع حکمرانوں سے رکھنا بے بس اور لاچار مزدوروں کا وطیرہ رہا ہے اور انھیں امید رہتی ہے کہ اس ملک کے نظام کو چلانے والے منتخب اور غیر منتخب حکمران طبقہ کبھی نہ کبھی اپنے فیصلوں پر اگر غور کرے تو انھیں مظلوم کی دادرسی میں کوتاہی ضرور معلوم ہو سکتی ہے۔واپڈا اتھارٹی نے اپنے ملازمین کو عید کے موقع پر اعزازیہ دے کر قابل فخر فیصلہ کیا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ وفاقی وزیر پاور ڈویژن عمر ایوب اورعرفان علی سکریٹری پاور ڈویژن حکومت پاکستان کو بھی فراخدلی سے الیکٹرک پاور کمپنیز کے بجلی ملازمین کو کورونا وائرس کے وبائی مرض اور رمضان المبارک کے مہینے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر بجلی کے کام کو ایمانداری اور محنت سے کرنے پر انھیں بھی عید الفطر کے موقع پر اعزازیہ کے حقدار ٹھہرا کر ان کی حکومتی سطح پر دادرسی کرکے انصاف کے تقاضے پورے کریں۔وفاقی حکومت الیکٹر ک پاور کمپنیز کے ملازمین کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزئی کرنے سے یہ ملازمین الیکٹرک پاور کمپنیز کے کاموں میں اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر خدمات میں مزید بہتری لاسکتے ہیں جو ادارے کی ترقی اور صارفین کی خدمات میں اضافے کیلئے بہتر اقدام ہو سکتا ہے۔
کورونا کے وبائی مرض میں سنٹرل پرچیسنگ پاور اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد پاور ڈویژن کا بلاک اور سی پی پی اے کا سیکریٹریٹ دو دن بند کرکے اسپرے کیا گیا ہے۔ اللہ کرے کہ تمام حکام اور اہلکاران محفوظ ہو۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے احتیاطی تدابیر کے باوجودکورونا وائرس ہماری سیکریٹریٹ تک پہنچ گئی جبکہ فیلڈ کے دفاتر کیلئے کام کے دوران تو ملازمین ہر حال سے غیر محفوظ ہیں۔ ان کی سرپرستی اور مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے۔