|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2020

بلوچستان بھر میں ترقیاتی کاموں کا معیار روز بروزگرتا جارہا ہے جس کے باعث تمام سرکاری منصوبے اس اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں بنتے جو بننا چاہئے تھا۔ آپ اس کی مثال پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ جیسے عظیم منصوبے کے حشر سے اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود کینال بحالی کا نام تک نہیں لے رہا۔ ایسے کئی منصوبے بلوچستان کے میڈیا کی زینت بنتے ہیں جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ صوبے میں میرٹ کے تحت اوپن ٹینڈر نہ کرانے اور اپنے من پسند ٹھیکیدار سے غیر معیاری اور ناقص منصوبے مکمل کرانا جہاں معیار اور کوالٹی نام تک کا ہو، وہاں کوئی بھی منصوبے چھ ماہ تک چل نہیں سکتے۔

صوبہ بھر میں لخصوص نصیرآباد ڈویژن میں کوئی ایک بھی ایسی سڑک نہیں جس کی مثال دی جاسکے یا یوں کہیئے کہ مذکورہ روڈ کی لائف ٹائم چھ ماہ سے زیادہ ہوتی ہو۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جس کیلئے18ویں ترمیم سونے کی چڑیا ثابت ہو ئی، مجھے یاد ہے کہ 18ویں ترمیم سے قبل پورا بلوچستان اوور ڈرافٹ پر چل رہا تھا صوبے پر قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وزیر اعلیٰ اسلام آباد کا یاترا کرکے صوبے کی ملازمین کی تنخواہوں کیلئے منت سماجت کرتا تھا لیکن 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان ملک کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں اراکین اسمبلی کی تعداد 65 ہے اور اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں چالیس سے پچاس کروڑ روپے سالانہ کی بنیاد پرملتے ہیں جہاں وفاقی پی ایس ڈی پی اور اسپشل گرانٹ اس کے علاوہ ہے۔

لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں ریکارڈ ترقی صرف کاغذوں میں ہی ہوتو اس پر ملک کے تمام سیاستدانوں، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو سوچنا ہوگا کہ اتنے بڑے ترقیاتی فنڈز ہونے کے باوجود عوام اور صوبہ کیوں کر پسماندہ اور محرومی کا شکار ہے اور عوام کو کیوں پسماندہ اور احساس محرومی کا شکار کیاجا رہا ہے۔ ملک میں نیب کے بڑے چرچے ہیں آج تک نیب نے بلوچستان کے میگا کرپشن کے کسی منصوبے کوزیر غور لایا ہی نہیں ہے کیا بلوچستان نیب کی ترجیحات میں شامل نہیں؟ تاہم اپوزیشن جماعتوں کے مطابق نیب اپوزیشن اور حکومت کے ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔

مجھے بھی اب اپوزیشن کی اس بات پر پختہ یقین آرہا ہے کہ بلوچستان میں شاید ہی ایسا سیاستدان ہو جس نے حکومت مخالف تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا ہو اور کسی اہم ایشو پر مخالفت کی ہو۔ نیب کی بلوچستان پرخاموشی دراصل ترقی کے عمل کو سپوتاژ کرنے کی اہم وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں کروڑوں روپے کے منصوبے بلخصوص روڈز جو غیر معیاری اور ناقص میٹریل سے بنائے جاتے ہیں جس پر پہلی مرتبہ کوئی ہیوی گاڑی گزرنے لگے تو اس روڈ کے بڑے بڑے پتھر تک نکل آتے ہیں اس طرح کے منصوبوں کی ناقص ہونے کی ذمہ داری بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے جو سفارش پر آتے ہوں جن کو اپنے حلقے کے منسٹر یا ایم پی اے کی مکمل سپورٹ حاصل ہو یا جو بیس سے تیس لاکھ دیکر اپنا ٹرانسفر کرکے آیا ہو وہ کیونکر معیاری کام کراسکے گا۔

بیورو کریسی اور ٹھیکیدار کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے بلوچستان میں روڈ سیکٹرروز بروز تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان ملک کا خوش قسمت صوبہ ہے جہاں نہ تو منصوبوں کے معیار کا باریک بینی سے جائزہ یا چیکنگ کی جاتی ہے اور نہ ہی موثر نگرانی۔ جہاں میرٹ کے برعکس اور سفارش کلچر کا رواج عام ہو وہاں منصوبوں میں معیار کہاں سے آئے گا۔ میرا بحیثیت صحافی مشاہدہ ہے کہ تمام سیکرٹریز معائنہ ٹیمیں جب بھی منصوبوں کامعائنہ کرنے نصیرآباد آتے ہیں وہ منصوبہ کی سائیٹ تک جانا گوارا نہیں کرتے اور نہ وہ منصوبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا گوارا کرتے ہیں۔

ڈیرہ مراد جمالی میں ہی بیٹھ کر سب کچھ ٹھیک کا راگ الاپ کر اپنے ٹی اے ڈی اے کے حصول میں ہی مگن ہوتے ہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں کسی بھی ناقص یا غیر معیاری منصوبے کی وجہ سے کسی کو بھی سرکاری سطح پر یا محکمانہ سزا ملی ہو۔ میرے صحافتی کیئر میں اس طرح کی کوئی سزا میرے علم میں نہیں یقینا جہاں سزا وجزا نہ ہو جہاں معیاری کام کی جگہ سفارشی کلچر ہو وہاں کیونکر منصوبے دیرپا ہو سکتے ہیں اور کیونکر ان منصوبوں کی لائف ٹائمنگ زیادہ ہو گی۔ ڈیرہ مراد جمالی میں گزشتہ ادوار میں نواب زہری کے وزیر اعلیٰ ترقیاتی فنڈز کے تحت بننے والے روڈز کے اب نام و نشان تک نہیں رہے۔

پورے شہر کے روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں ان منصوبوں کے کام کا معیار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام روڈز کے بڑے بڑے پتھر تک نکلتے جا رہے ہیں آپ ان روڈز کے معیار کا اندازہ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان بلیک ٹاپ روڈز میں جہاں معیاری تار کول کے بجائے جلے ہوئے بلیک آئل ڈال کر روڈ کو بلیک ٹاپ بناکر مکمل کیا جائے تو وہ روڈ کہاں سے معیاری ہوگا۔ یقینا جہاں سزا وجزا بھی نہ ہو وہاں کیونکر آفیسران معیاری کام پر توجہ دیں گے۔ کیا کبھی کسی منتخب وزیر یا ایم پی اے نے کسی بھی منصوبے کے معیار پر اعتراض کیا ہے اس طرح کی مثال صوبے بھر میں بہت ہی کم ملیں گی۔ آج تک کسی منصوبے میں ناقص میٹریل استعمال ہونے پر کسی آفیسر کا تبادلہ تک نہ ہو وہاں کیونکر کام میں معیار اور کوالٹی ہو سکتا ہوگا۔

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں ہر کام منسٹرز کی ہی مرضی ومنشاء سے ہوتا ہے جہاں سیکرٹریز سے ڈائریکٹرز تک منسٹر کی پسند پر تعینات ہوں وہاں معیار کی کون ضمانت دیگا،وہاں ترقیاتی منصوبوں میں کیا معیار ہو سکے گا۔ نیب یا ایف آئی اے کی کوئی اس طرح کی صوبے کے میگا منصوبوں پر کبھی تحقیقات کرنے کی کوئی بھی مثال موجود نہیں جہاں آفیسران اور سیاستدانوں سے باز پرس ہوئی ہو۔ بلوچستان کے قوم پرست صوبے کے سادہ لوع عوام کو ہمیشہ یہ کہہ کر بے وقوف بناتے ہیں کہ پنجاب ہمارے حقوق غصب کر رہا ہے پنجاب ہمارے وسائل ہڑپ کر رہا ہے کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ صوبے کے ان 65 اراکین اسمبلی کا تعلق پنجاب سے ہے کیا یہ اراکین اسمبلی صوبے کے ترقی کیلئے ملنے والے فنڈز کو پنجاب پر خرچ کر رہے ہیں۔

یہ سب عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان کو یہ کہا جائے کہ یہ کرپشن کی جنت ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اب وقت آگیا ہے کہ ملکی اداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا، کرپٹ کو سزا اور ناقص منصوبے بنانے والوں کا احتساب جب تک نہ ہوگا بلوچستان ترقی کی منازل کبھی بھی طے نہیں کر سکے گا۔ ستر سالوں سے صوبے کے عوام احساس محرومیوں اور پسماندگی کا شکار ہیں،عوام قرون اولیٰ اور پتھر کے زمانے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی محرومی، عدم ترقی،پسماندگی کا جہاں قبائلی نظام طاقتور سیاسی کلاس ذمہ دار ہے۔

وہاں بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ بھی ذمہ دار ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے تمام اداروں کو صوبے کی تباہ حالی، پسماندگی اور محرومیوں کے ازالے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ستر سالوں سے صوبے اور عوام کی حالت زار کو اس طرح بنانے والوں کا اب سخت احتساب کرنا ہوگا، پسند اور ناپسند اور سلیکشن کا خاتمہ کرنا ہوگا،صوبے میں میرٹ کو فروغ دینا ہوگا، تمام منصوبوں کے معیار اور کوالٹی کاجائزہ لینا ہوگا، ناقص کام کی صورت میں متعلقہ محکمہ کے ایکسئین، ایس ڈی او انجینئر تک کو سزا دینا ہوگا۔ تمام منصوبے من پسند ٹھیکیداروں کو دینے کے بجائے اوپن ٹینڈر پر دیئے جائیں۔

جہاں بھی اوپن ٹینڈر نہ ہوں وہاں کے ٹینڈر کینسل کرکے متعلقہ آفیسر کے خلاف محکمانہ کاروائی کی جائے۔ تمام منصوبوں کو سیاست اور سفارش سے پاک کیا جائے یعنی سیاسی اپروچ کو میرٹ پر ترجیح نہ دی جائے تو پھر بلوچستان حقیقی معنوں میں ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے اور عوام کی محرومیوں کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے تاہم اس طرح کے عمل کیلئے نہ تو سیاستدان سنجیدہ ہیں نہ بیورو کریسی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔ اگر اب بھی ان مذکورہ اداروں نے سنجیدگی نہ دکھائی تو عوام میں پیداہونے والی بے چینی اور نفرت کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا.