حالیہ عالمی وباء کوویڈ-19 کی وجہ سے جہاں روزمرہ زندگی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں اس کے بے پناہ اور تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے مختلف قسم کے جسمانی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس وباء کی وجہ سے لاکھوں انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک نے لاک ڈاؤن کرفیو اور مارکیٹوں دکانوں سکولوں اور عبادت گاہوں کو مکمل یا جزوی طور پر بند کیا ہوا ہے۔
اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے دنیا بھر کی حکومتوں نے اپنے تہیں اقدامات کیے ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہی اس سے بچنے کا واحد حل خیال کیا جاتا ہے۔سدرہ اختر فاؤنڈیشن ڈرگز اینڈ سائیکولوجیکل ری ایبلیٹیشن انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے چیئرپرسن ڈاکٹر سدرہ اختر کے مطابق اس طویل غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مختلف ذہنی امراض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جن میں کرونا وائرس کا خوف، ذہنی دباؤ میں اضافہ، بے چینی، چڑچڑاپن، منفی خیالات میں اضافہ، بھوک کا نہ لگنا، ناامیدی مایوسی، منفی اور متشدد رویوں میں اضافہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ جبکہ جسمانی قوت مدافعت میں شدید کمی اور ذہنی اعصاب میں تناؤ بھی ان نفسیاتی عوارض میں شامل ہیں۔
ان مسائل کی وجہ سے خودکشی گھریلو جھگڑوں اور ان جیسے جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔انکے بقول ذہنی امراض سے نمٹنے کیلیے مختلف جسمانی ایکسرسائز جیسے دوڑنا، روزانہ ورزش، چہل قدمی، مثبت سوچ اپنانا، جسمانی مدافعت میں اضافے کیلیے دن میں 10 سے 15 منٹ دھوپ میں بیٹھنے، وٹامن سی اور ڈی سے بھرپور خوراک اور پھلوں کے زیادہ استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے۔
علاؤہ ازیں انکے بقول سماجی رابطوں کے ویب سائٹ جیسے فیسبک وٹس ایپ اور سنسنی پھیلانے والے دیگر ذرائع سے دوری، اچھی خوراک، پوری نیند کی تجاویز پر عمل سے ان سے بچا جاسکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے طویل لاک ڈاؤن اور اسکی وجہ سے شہریوں کی زندگیوں پر رونما ہونے والے نفسیاتی مسائل کے حل کیلیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے ہیں۔ آن لائن کونسلنگ اور طبی ماہرین کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کیلیے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
کوویڈ 19 کے وباء سے پاکستان بھی زیادہ دیر تک بچ نہیں سکا۔ یوں تو پاکستان میں کرونا کا وباء تفتان بارڈر اور بیرونی ممالک سے بذریعہ ہوائی جہاز آنے والوں کی وجہ سے پھیلا۔ اس سلسلے میں صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ جبکہ حالیہ اعداد شمار کے مطابق پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں ایک دن میں رپورٹ ہونے والے کیسوں کی تعداد بتدریج تین اور چار کے ہندسہ عبور کرگیا ہے۔
بلوچستان خیبر پختونخوا اور گلگت بلتسان بھی کوویڈ-19 کے وار سے محفوظ نہیں رہے۔ گزشتہ تقریباً 50 دنوں سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے۔ اشیاء خوردونوش اور دیگر بنیادی ضروری اشیاء کی دکانوں کے علاؤہ تمام کاروباری مراکز، مساجد۔ عبادت گائیں تعلیمی ادارے سرکاری و نجی دفاتر سمیت تمام معمولات معطل رہیں۔طویل لاک ڈاؤن اور مسلسل گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے شہریوں کی زندگیوں پر اسکے منفی اثرات پڑے ہیں۔
جسمانی بیماریوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذہنی اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام نے شہریوں کو لاحق نفسیاتی مسائل کے تدارک کیلیے آن لائن مشاورتی لیکچر اور ماہرین نفسیات سے براہ راست رابطے کی سہولیات فراہم کی ہے جس سے وہاں کے شہریوں کو اس سلسلے میں کافی مدد ملی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں اس سلسلے میں اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم سندھ حکومت اس سلسلے میں کافی مستعد اور رہنما خدمات سر انجام دے رہی ہے اس سلسلے میں شروع دن سے اس بات پر وزیراعلی ٰکی جانب سے کافی زور دیا جارہا ہے کہ کوویڈ-19 کے علاج کے ساتھ شہریوں کی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے۔ حکومت سندھ نے تمام صوبوں سے پہلے جناح ہسپتال کراچی میں اس حوالے سے خصوصی سیل بنائی جو کوویڈ-19 اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اسکے شہریوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کیلیے کام کررہی ہے۔
پنجاب اور کے پی کے نے بھی اس حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے ہیں۔تاہم بلوچستان میں اس سلسلے میں حکومتی سطح پر بولان میڈیکل کمپلکس میں نفسیاتی امراض کے ڈیپارٹمنٹ کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں تاہم حیران کن طور پر اس اہم شعبے کو یکسر نظر انداز کردیا گیاہے۔اس صورتحال کے پیش نظر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے صوبے کے ماہرین نفسیات کی تنظیم “بلوچستان سائیکالوجسٹ ایسوسی” ایشن نے اپنے تہیں ایک آن لائن مہم کا آغاز کیا ہے جس میں ماہرین نفسیات آن لائن مریضوں کے مسائل سنتے اور انہیں مشورے دیتے ہیں۔
ایسوسی ایشن کے صدر میر بہرام لہڑی کیمطابق وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بذریعہ انٹرنیٹ، فون کال، وٹس ایپ، سکائپ وغیرہ کے روزانہ سیکنڑوں مریضوں کے مسائل سنتے اور نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کیلیے انکی کاؤنسلنگ اور مشورے دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے اس مہم کی وجہ سے اب تک سینکڑوں افراد کو فائدہ پہنچا ہے۔ میر بہرام لہڑی اور انکے دیگر ساتھی ماہر نفسیات اپنا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صوبے کے بڑے ہسپتال جیسے بی ایم سی اور سول ہسپتال کے شعبہ ہائے دماغی امراض سے استفادہ کیا جائے اور حکومتی سطح پر شہریوں کیلیے لازمی ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
ایسے ہی موقعوں سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کا مطالبہ کیا جارتا رہا ہے۔ اب جبکہ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کردیا ہے مگر عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر نہیں اپنائے جارہے ہیں۔ جس سے براہ راست قیمتی جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ بہر حال یہ ایک مشکل گھڑی ہے اسے صبرو تحمل، بلند حوصلوں کے ساتھ گزارنا ہے۔ہمارے مسائل ذہنی وجسمانی پاکیزگی سے ہی ختم ہوسکتے ہیں۔