گزشتہ روز وفاقی وزیر اسد عمر خان نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور یہ کب ختم ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتے، اس لئے اب حکومت نے ایس او پی کے تحت کاروبار زندگی مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شعبہ غیر معینہ مدت کے لیے بند نہیں کرسکتے۔
وفاقی وزیر کا یہ پالیسی بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں دوسری نرمی کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے صوبوں سے بھی کہا ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ سمیت روز مرہ عوامی تعلق داری کے حامل شعبے کھول دیں۔اب تک کی اطلاع کے مطابق پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائن نے اندرون ملک جزوی پروازیں شروع کرنے کا پلان جاری کردیا ہے جبکہ ریلوے نے بھی ایس او پی کے تحت ابتدائی طور پر 24 ٹرینیں چلانے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔
پنجاب اور کے پی نے پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کی حامی بھر لی ہے تاہم سندھ اور بلوچستان تاحال پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کے حامی نہیں گو کہ حکومت بلوچستان نے کورونا وائرس کے دوران اپنی انفرادی حکمت عملی کے بجائے ہمیشہ وفاقی حکومت اور سندھ کی دیکھا دیکھی کی ہے تاہم پبلک ٹرانسپورٹ پر مخالفانہ رویہ باعث تعجب ہے۔بلوچستان میں تعلیمی ادارے پورے ملک میں لاک ڈاؤن سے قبل ہی بند کردئیے گئے تھے اور سرد علاقوں میں اب تعلیمی اداروں کی بندش کا دورانیہ لگ بھگ چھ ماہ پر محیط ہوچکا ہے۔
یہ بات باعث تعجب ہے کہ ٹرانسپورٹ بندش یا روانی سے متعلق اپنے صوبائی سطح کے فیصلے کی طرح بلوچستان حکومت ایس او پی کے تحت تعلیمی اداروں کے مستقبل کا فیصلہ از خود کرنے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتی۔18 ویں ترمیم کی موجودگی میں وفاقی وزارت تعلیم کی پالیسیوں کا نفاذ صوبوں پر کیا جا رہا ہے، اس سوال کا جواب تاہنوز ہمیں نہیں مل رہا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے غیر یکساں اور آئے روز بدلتے موقف کے باعث نہ صرف طلبہ بلکہ نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہزاروں اساتذہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
بد قسمتی سے ملک کے فیصلہ ساز افراد لاک ڈاؤن کی اس غیر معمولی صورتحال میں جوتوں کی دکان اور تعلیمی اداروں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں تاہم گزشتہ چند روز کے فیصلوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ حکومت کی نظر میں جوتوں کی اہمیت تعلیمی اداروں سے زیادہ ہے کیونکہ ایس او پی کے تحت جوتوں کی دکان کو کھلنے کی اجازت مل چکی ہے لیکن تعلیمی اداروں سے متعلق تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔
آن لائن ایڈمشنز اور تعلیمی تسلسل کا جو ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اس کی افادیت قطعی طور پر ان تعلیمی ویب سائٹس سے زیادہ نہیں جو گوگل سرچ انجن سے ایک ہی کلک پر دستیاب ہیں بلکہ ان کا معیار کئی گنا ان ویڈیوز سے اچھا ہے جو ناقص ترتیب سے بنا کر اب والدین کے واٹس ایپ پر لوڈ کی جارہی ہیں۔ یہ محدود سہولت بھی محض کوئٹہ اور بلوچستان کے چند ایک ایسے علاقوں میں موجود ہے جہاں انٹر نیٹ کی قدرے مستحکم سہولت اور بچوں یا ان کے والدین کے ساتھ ٹچ موبائل کی سہولت موجود ہے اور پورے صوبے میں یہ تناسب بمشکل 15 سے 20 فیصد تک ہے۔
پی ٹی سی ایل سمیت نجی کمیونیکیشن کمپنیوں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ صوبائی وزیر تعلیم بلوچستان سردار یار محمد رند صاحب کے اپنے آبائی گاؤں شوران میں انٹر نیٹ کا مستحکم نظام تو اپنی جگہ کوالٹی وائس اسٹینڈرڈ کال کی دستیابی بھی بہت مشکل ہے، اس ضمن میں اہلیان شوران کے اخباری بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں جس میں انہوں نے نجی موبائل کمپنیوں سے نالاں ہوکر بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
آن لائن کلاسز کا تجربہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے علاوہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی کامیابی و پذیرائی حاصل نہیں کرسکا۔ میرے ایک اچھے دوست شہزاد بلوچ ایک امریکی یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، آن لائن کلاسز سے متعلق انہوں نے اپنا جو تجربہ شیئر کیا ہے اس کا موازنہ پاکستان سے کریں تو سنگین صورتحال واضح ہوتی ہے۔
بلوچستان میں نجی شعبہ تعلیم، شرح خواندگی میں اضافے کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور ہزارہا خامیوں کے باوجود ان کی کنٹریبیوشن سے انکار ممکن نہیں گو کہ تعلیمی کاروبار سے وابستہ بڑے تعلیمی نیٹ ورکس اور چین سسٹم کے قطع نظر چھوٹی سطح کے یہ نجی ادارے اس حد تک انکم جنریٹ کرتے ہیں کہ اپنے اساتذہ کی تنخواہیں اور اپنا وجود برقرار رکھ سکیں تاہم اب طویل اور غیر معینہ مدت کے لاک ڈاؤن سے ان چھوٹی سطح کے تعلیمی اداروں کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
ابتدائی ایام میں اپنے اسٹاف کو تھوڑی یا بہت اجرت کے ساتھ برقرار رکھنا ان اداروں کا وہ کمال تھا جو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں کرسکے اور اپنے ہزاروں ملازمین کو برطرف کر دیا، ایسے حالات میں ان چھوٹے نجی اداروں کا اپنا وجود برقرار رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں لیکن اگر حالات ایسے ہی رہے تو یہ ادارے بھی ڈوب جائیں گے اور بلوچستان کے ہزاروں بچے اسکولوں سے باہر ہوجائیں گے۔
بہتر ہوگا کہ ارباب اختیار جوتوں اور کاسمیٹکس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی ایس او پی کے تحت کھولنے کی مشروط اجازت دیں۔ابتدائی طور پر صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک کلاسز کا اجراء ممکن ہے 30 کی جگہ 15 بچے بٹھائے جاسکتے ہیں اور ان کو ایک روز کی چھٹی دیکر ایک روزہ ہوم ورک دے دیا جائے اور اسی طرح باقی پندرہ بچوں کو اگلا روز دیا جائے۔
اس طرح نہ صرف بچے تعلیمی سلسلے سے جڑے رہیں گے بلکہ نجی تعلیمی اداروں کے ہزاروں اساتذہ کی نوکریاں بھی چلتی رہیں گی۔ یہ اساتذہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ایک راشن کا تھیلہ نہیں اپنے باعزت روزگار کی بحالی چاہتے ہیں۔خدارا اس ملک اور قوم پر رحم کیجئیے حضور ہمیں جوتوں کی نہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔