ڈیرہ اللہ یار: وفاق اور بلوچستان حکومت گندم خریداری کے لیے مناسب قیمت مقرر نہ کرسکے کاشتکارپاسکو اور محکمہ خوراک کے بجائے اوپن مارکیٹ میں گندم فروخت کرنے لگے ہیں۔
بلوچستان میں آٹے کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جعفرآباد اور نصیرآباد اضلاع کے 8لاکھ کمانڈ ایریا میں رواں سال گندم کی بمپر فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آگئی ہے وفاق اور بلوچستان حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے لیے مناسب قیمت مقرر نہیں کیا گیا وفاق اور بلوچستان حکومت نے گندم کی خریداری کے لیے فی من ساڑھے 13سو روپے مقرر کی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں گندم کافی من ساڑھے 14سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
اوپن مارکیٹ میں بیٹھے بیوپاری گاؤں گاؤں جا کر کاشتکاروں اور زمینداروں سے فی من ساڑھے 14سو روپے میں خرید کر درآمدات کے لیے گوداموں میں ذخیرہ کررہے ہیں جبکہ گندم کی خریداری کے لیے وفاقی ادارہ پاسکو اور بلوچستان حکومت کی جانب سے محکمہ خوراک کا عملہ گندم کی خریداری کے لیے کاشتکاروں اور زمینداروں کا منہ تکتے رہتے ہیں گندم کی فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتے ہی پہلے مرحلے میں پاسکو جعفرآباد زون نے دو ہزار بوریاں خرید کر ذخیرہ کر لیے ہیں اوپن مارکیٹ میں وفاقی اور بلوچستان حکومت کی جانب سے مقررکردہ قیمت سے زیادہ رقم ملنے کے بعد کاشتکاروں نے پاسکو اور محکمہ خوراک کو گندم فروخت کرنے کے بجائے اوپن مارکیٹ کا رخ کر لیا۔
جعفرآباد اور نصیرآباد کے علاقوں ڈیرہ اللہ یار اوستہ محمد ڈیرہ مراد جمالی منجھو شوری بابا کوٹ ودیگر علاقوں میں نجی بیوپاری بھاری رقم لیے گندم کی خریداری کی میں مصروف ہیں کاشتکاروں اور زمینداروں کا کہنا ہے کہ پاسکو اور محکمہ خوراک کی جانب سے گندم کی خریداری کے لیے مناسب قیمت بھی نہیں دی جارہی جبکہ پاسکو اور محکمہ خوراک کو گندم کی فروخت پر رقم بھی تاخیر سے ادا کی جاتی ہے۔
پاسکو اور محکمہ خوراک کو گندم فروخت کرنے کے بعد رقم کے حصول کے لیے بینکوں کے چکر کاٹنے کیساتھ ایک لاکھ روپے کی وصولی پر ڈیڑھ ہزار روپے ٹیکس کٹوتی بھی کی جاتی ہے جس سے کاشتکار اور زمیندار کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوپن مارکیٹ میں موجود بیوپاری موقع پر ہی حکومتی قیمت سے ایک ہزار روپے زیادہ رقم کی ادائیگی کر لیتے ہیں۔
جس کے باعث کاشتکاروں اور زمینداروں کو رقم کے حصول کے لیے بینکوں کے چکر کاٹنا بھی نہیں پڑتا اور نہ ہی ٹیکس ادائیگی کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اوپن مارکیٹ میں بیٹھے بیوپاری بڑی مقدار میں گندم خریداری کرنے کے بعد گندم کو درآمدکرنے کے لیے افغانستان ودیگر ممالک کے ایکسپوٹرز سے روابط میں ہیں پاسکو اور محکمہ خوراک کو گندم کی خریداری میں ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں بلوچستان میں آٹے کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
عوامی حلقوں نے وفاق اور بلوچستان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی خریداری کے لیے قیمت ساڑھے 13سو سے بڑھا کر ساڑھے 15سو روپے فی من مقرر کرکے گندم کاشتکاروں سے خریدکر ذخیرہ کیا جائے تاکہ آنے والے بحران سے نمٹنے میں آسانی ہوسکے۔