|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

کورونا وائرس جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، وہی پاکستان میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے،پوری ملک میں عجیب سی کیفیت ہے،ڈر و خوف ہے،جس کے باعث گلیاں،کوچے اور بستیاں ویران ہیں۔انسان کو انسانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ اسطرح کوئی کسی خونی بلا سے نہیں بھاگتا جیسے انسان کرونا وائرس کے مریض سے بھاگ رہا ہے۔جن لوگوں کی اس وائرس سے اموات ہو رہی ہیں نہ توکوئی ان کے جنازے کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی تدفین کے لئے جا سکتا ہے۔

جب بھائی بھائی سے بھاگ رہا ہے تو ایسے میں پاکستان میں محدود وسائل کے باوجود بھی ان سنگین حالات میں پروفیشنلز، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف،سکیورٹی اہلکار،میڈیا پرسنز،سماجی کارکنا ن،رضاکاران اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر فرنٹ لائن پر اس مرض پر قابو پانے اور ان سے فوری نقصان کے ازالے کے لئے لڑ رہے ہیں، حالانکہ وہ درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پھر بھی احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام رہے ہیں،اس موقع پر پوری قوم ان کی سلامتی اور کامیابی کے لئے دعا گو ہے۔اس عالمی وباء کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس مرض سے 46 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں اور تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔

اگر ہم پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت ہمارے ہاں چالیس ہزارکے قریب افراد کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں نو سو کے قریب ہلاک ہوچکے ہیں اور روزبروز ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،اگرچہ فی الحال ہمارے ہاں کوروناوائرس کا پھیلاؤ اور ہلاکتیں اس طرز کی نہیں جیسا کہ اٹلی اور امریکہ میں ہورہا ہے۔لیکن عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ حکومتی سمارٹ لاک ڈاؤن کے موجودہ فیصلے کے باعث آئندہ چند ہفتوں بعد پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ڈرامائی طور پر بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ یہ بڑی خطرناک صورتحال ہوگی۔

پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں معیشت پہلے سے تباہ حال ہے، اور جہاں کورونا وائرس سے نپٹنے کے لئے وسائل کی شدید کمی ہے۔ہسپتالوں میں ممکنہ سہولیات کی کمی،ڈاکٹرز،نرسزو دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی ناکافی تعداداور طبی عملے کا تربیت یافتہ نہ ہونا،ادویات کی کمی، وینٹی لیٹرز کا مناسب تعداد میں نہ ہونا، کورونا ٹیسٹ کیلئے سکریننگ کٹس کی کمی اور دیگر بہت سی سہولیات کی عدم دستیابی وفقدان اس سنگین صوررتحال کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔میں جب بھی ٹی وی و سوشل میڈیاپر یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کے خلائی طرز کے بنے لباس،نرسز و پیرامیڈکس کی خصوصی حفاظتی کٹس، کورونا سے مرنے والوں کی میتوں کو قبرستان لے جانے کے لئے اسپیشل ایمبولینسز اور مردہ اجسام کو ڈھانپنے کے لئے خاص طور پر بنائے گئے۔

شاپرز اور ان کی مکمل احتیاطی تدابیر کو دیکھتا ہوں تو حیران ہو کر سوچتا ہوں کہ پاکستان جیسے جدید سہولیات سے محروم غریب ملک کے ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز میں کام کرنے والاطبی عملہ جن میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور دیگر خاکروب و سوئپرز وغیرہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھے سر پر کفن باندھے مجاہدوں کی طر ح جس حوصلے اور جانفشانی کے جذبے کے ساتھ برائے نام حفاظتی سازوسامان کے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی جان بچانے کے لئے شب وروز کام کر رہے ہیں، وہ لائق تحسین اور قابل تعریف ہے۔ان کا یہ جذبہ اور حوصلہ دیکھ کرتو بلا اختیار انہیں سلیوٹ کرنے کو جی چاہتا ہے، دوسروں کی جان بچانے کی خاطرکورونا وائرس سے لڑتے ہوئے کئی ڈاکٹرز اب تک خود اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اوران کی فیملیز اپنے پیاروں سے محروم ہو چکی ہیں۔ جبکہ بہت سے ڈاکٹرز او طبی عملہ خود بھی اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں،پاکستان میں گزشتہ ہفتے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر وزرات قومی ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فرنٹ لائن ورکرز میں ابتک ملک بھر میں 350 ڈاکٹرز،120نرسز،اور 250 کے قریب دیگر ہیلتھ اسٹاف کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، جنہیں قرنطینہ کر دیا گیا ہے،ان میں سے کچھ صحت یاب ہوگئے ہیں اور چند کی ہلاکتوں کی بھی خبریں ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں کورونا وائرس سے متاثرین مریضوں کی تعداد 2400 کے قریب ہے،جس میں طبی عملے پر بہت سارے لوگ شامل ہیں، وہی پر ضلع لسبیلہ کی بات کریں تو گزشتہ ہفتے کے آخر تک محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے شکار مریضوں کی تعداد بیس ہے جس میں دو خواتین کی ہلاکت ہوچکی ہے۔

لسبیلہ کی اس تیزی سے تبدیلی ہوتی ہوئی صورتحال میں یہ خبر مزید تشویش ناک ہے کہ لس بیلہ میں کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے دو ڈاکٹرز،ایک لیب اسسٹنٹ،اور دو لیویز اہلکار خود بھی اس مرض کا شکار ہوئے ہیں تاہم قرنطینہ میں قیام کے بعد اس کی صحت بہتر ہے۔میں نے اس صورتحال میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لسبیلہ ڈاکٹر محمد آصف شاہوانی سے بات کی ان کا کہنا ہے،ہمیں موجودہ صورتحال کا اندازہ ہے اور ہم مکمل طور پر چوکس ہیں،اس سلسلے میں لسبیلہ کراچی کی بارڈز پر حب آنے والے افراد کو ہمارا طبی عملہ اسکین کرتاہے، اور ہمارے رسپونسڈ ٹیم ہر شہر میں موجودہے،اس ٹیم کے ذریعے حب کی مختلف فیکٹریوں میں باہر نے آنے والے مزدروں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں،اپنے طبی عملے کی مختلف اداورں کی مدد سے ٹریننگ کا مناسب بندوبست کیا ہے۔

اور ان کو حفاظتی کٹس فراہم کی ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ عوام بھی اس مشکل گھڑی میں اپنے فرنٹ لائن کے سپاہیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔ ایمر جنسی کے علاوہ ہر گز ہسپتال کا رخ نہ کریں۔ضرورت کے وقت مریض کے ساتھ صرف ایک ہی بندہ جائے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کریں،ماسک کا استعمال کریں،صابن سے بار بار ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں، گھر پر رہیں نہ خود اس وائرس کا شکار ہوں نہ ہی دوسروں کو انفیکٹیڈ کرنے کا ذریعہ بنیں۔ جتنے زیادہ مریض ہونگے اتنا ہی ہمارے فرنٹ لائن کے سپاہیوں کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گا،اور صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے طبی عملہ کم پڑ جائے گا،انہوں نے مزید کہا کہ برائے مہربانی ان کی خاطر گھروں میں قیام کریں۔ تہذیب یافتہ اور با شعور شہری کا ثبوت دیتے ہوئے اگر کسی کوکروناوائرس سے انفیکٹیڈ مریض کا پتا چلتا ہے تو انتظامیہ کو ضرور آگاہ کریں۔

یقینا اس تمام تر صورتحال میں ڈاکٹر آصف شاہوانی کی بھی بھرپور کوشش ہوگی کہ وہ اپنے ماتحت عملے کو ان کے فرائص کی ادئیگی کے دوران کورونا وائرس سے حفاظت کو یقینی بنائیں اور ان کی خدمات کو سرہائیں تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں،اس موقع پر حکومت اور محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو بھی چاہئیے کہ وہ تمام تر ہسپتالوں و قرنطینہ سنیٹرز میں کام کرنے والے طبی عملہ کو حفاظتی کٹس کی فراہمی کو جلد از جلد یقینی بنائیں تاکہ ہمارے ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکس بہتر انداز میں اس ان دیکھے موذی دشمن کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔

طبی عملہ کی جانب سے کچھ جگہوں سے حفاظتی کٹس اور دیگر سامان فراہم نہ کرنے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں ان شکایات کا ازالہ فوری طور پر کیا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کی اسکریننگ اور ٹیسٹ کے پراسس کوئی آسان کام نہیں ہے یہ بیماری بہت جلد ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتی ہے۔کورونا وائرس کے خلاف جب صف اول پر لڑنے والے ہیروز کی بات کرتے ہیں تو یقینا میڈیا سے منسلک ان دوستوں کو نہیں بولنا چاہیے،جب ہم کورونا وائرس کے خطرہ سے بچاؤکے پیش نظر گھروں میں قید خود کو نظر بند کئے ہوئے ہیں تویہی ہم عوام کو ملکی و غیر ملکی حالات سے باخبر اور پل پل معلومات کی آگاہی فراہم کر تے ہیں جوکورونا وائر س سے پھوٹنے والی عالمی وبامیں بلا خوف وخطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔


رپورٹس کے مطابق صرف بلوچستان میں بھی ابتک کئی میڈیا ورکرز اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتے ہوئے کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں،یقینا یہ وہ لوگ ہیں پوری تن من اور ایمانداری کے ساتھ عالمی وائرس وباء کے خلاف اٹھائے جانے والی حکومتی اقدامات کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں اور لوگوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور بچاؤ کے عملی اقدامات بارے شعور و آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔کورونا وائرس کے خلاف اختیاطی تدابیر کے طور پر صوررتحال کو کنٹرول رکھنے کے لیے ہمارے انتظامیہ کے آفیسران،ہماری افواج اور پولیس و لیویز اہلکاروں کا بھی بہت ہی شاندار کردار ہے۔

جو دن رات حکومتی اقدامات کی تعمیل کرانے کے لئے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کے ان گمنام اور نظر آنے والے سماجی کارکنان و رضاکاروں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو ہزاروں لاکھوں غربا ء مساکین،بیروزگار ودیہاڑی دار مزدورطبقوں کی بھرپور انداز سے خدمت میں مصروف عمل ہیں اور اس صورتحال میں ہزاروں لوگوں کے چولہوں کو بجھنے سے بچا رہے ہیں اور شعور وآگاہی کے عمل کے فروغ کے لیے آواز بلند کررہے ہیں عالمی وباء کے اس مرحلے پر حب صورتحال سنگینی کو ظاہر کررہی ہے یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ حکومت،انتظامیہ،اور شہریوں کو ایک سوچ،ایک مقصد اور یکسا ں لائحہ عمل کے ساتھ اس وباء سے لڑنا ہوگاکیونکہ احتیاط کے بدولت ہی سب محفوظ اور فتح مند ہوسکتے ہیں، ورنہ اس کے برعکس خدا نہ کرے کہ چند لوگوں کی غیر ذمہ داری اور لاپروائی کی وجہ سے اپنے پیاروں اور اپنے فرنٹ لائن ان ہیروز کو یکے دیگر بعد کھونا نہ پڑے۔

آئیے ہم سب اللہ سے مل کر دعا کریں کہ وہ ہم سب کو اس وبائی مرض سے محفوظ رکھے اور خاص کر ہمارے وہ قومی مسیحا ئی ہیروز جو ہماری حفاظت کی لئے اپنے آرام دہ گھروں سے نکل کر ہماری حفاظت پر مامورہیں اللہ رب العزت انہیں اور ان کے اہل خانہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے،آمین