|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

اسے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا ہے جب سے اسکی عمر بڑھتی گئی تب ہی سے ہندو ہونے کے ناطے اسے معاشرے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا اسکی پیدائش کوئٹہ کے ایک ہندو گھرانے میں ہوئی اور اب وہ بیچلر کی ڈگری حاصل کرچکی ہے کنول نے (فرضی نام) بتایا کہ ” کوئٹہ میں مندر چند ایک ہی رہ گئے ہیں جسکی وجہ سے مجھے عبادت کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اکثر اوقات رات کے وقت عبادت کرتے ہوئے دیر ہوجانے کے باعث مندر سے گھر واپسی کے لئے سواری کا ملنا مشکل ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کسی بھی مذہبی تہوار کا انعقاد صبح کے وقت کریں تاکہ دور دراز علاقوں سے آنے والے افراد کو اپنے گھروں کو واپس جانے مشکلات کا سامنا نہ ہوں جبکہ اسی سلسلے میں خواتین کیلئے مشکالات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

کنول نے مذید بتایا کہ کوئٹہ میں جن قدیم مندروں پر اسکول اور دیگر سرکاری دفاتر بنائے گئے ہیں انہیں واپس مندر بنایا جائے جس سے مندروں کی تعداد زیادہ ہوسکے گی اور مجھے عبادت کرنے،مزہبی رسومات کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔کنول نے مذید بتایا کہ کے ہندو برادری کے مذہبی تہواروں میں لاوڈسپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے اکثر وبیشتر مقامی افراد کی جانب سے لاوڈاسپیکر کیاستعمال پر انہیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا اور ان پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ لاوڈ اسپکیر کا استعمال نہ کیا جائے۔پاکستان بیورو آف اسٹیٹیٹکس کے مطابق 2017 میں ہونے والی مردم شماری میں بلوچستان کی کل آبادی 12.34 میلین ہے جبکہ صوبے میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کل آبادی کی 1.24 فیصد بنتی  جن میں سے ہندو برادری کی آبادی کا تناسب 0.49 فیصد ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنہء 2020 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں 1882 میں گورنمنٹ سنڈیمن پرائمری اسکول  بنایا گیا جسے 1904 میں ہائی اسکول کا درجہ ملا اس اسکول کا پہلا ہیڈ  ماسٹر ہارپر تھا۔ ڈاکٹر بانو روڈ پر واقع اس سکول میں ہندو برادری کا مندر بھی واقع ہے۔ جوکہ صوبائی محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی نگرانی میں ہے۔ اسی مندر کو سال ہوئے بند کیا گیا ہے جس کا راستہ سکول ہی سے ہوتا ہے۔ مگر مقامی ہندووں کو یہاں پر عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن فار پاکستان کے بلوچستان میں عہدے دار نیل کمل نے بتایا کوئٹہ کے فاطمہ جناح روڈ پر قائم سنڈیمن اسکول کہ احاطے میں   صناطن مند ہوا کرتا تھا جسے اب لائبریری میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

جہاں سے ہماری تمام مقدس مورتیاں غائب کر دی گئی ہیں اور اسکی جگہ مقدس مورتیوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جو کہ سراسر غلط اقدام ہے نیل کمل کے مطابق وہ بچپن  میں کوئٹہ کینٹ میں موجود سدھ پانی ناتھ مندر کے میں پوجا کرنے کے لئے جایا کرتا تھا جسے اب سکیورٹی مسائل کی وجوہات کو بنیاد بنا کر بند کردیا گیا ہے اس وقت کوئٹہ میں مندروں کی تعداد صرف چار رہ گئی جس میں مسجد روڈ پر قائم آریا سماج، شاوکشاہ روڈ پر کرشنامندر، ڈاکٹر بانوں روڈ پر مسافر خانہ مندر اور جناح روڈ پر مسافر خانہ ماتا مندر شامل ہیں جبکہ کوئٹہ میں ہندو برادری کے لئے صرف چار مندروں کا ہونا بہت کم ہے کوئٹہ کے مسجد روڈ پر قائم  قدیم طرز تعمیر کی عمارت جس کے تینوں اطراف سے چار دروازے ہیں اپنے آس پاس موجود دیگر تمام عمارتوں سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔

سردار جسبیر جی سنگھ نے بتایا اس عمارت کی تاریخ  250 سالوں پہ محیط ہے یہ عمارت گورو سنگھ سبھا کی ملکیت ہوا کرتی تھی جہاں سکھ برادری کا گوردوارہ قائم تھا جسے 1960 میں حکومت نے تحویل میں لیکر آل پاکستان وومین ایسوسییشن گرلز ہائی اسکول تعمیر کیا۔سردار جسبیر جی سنگھ بلوچستان میں سکھ برادری کے چئیرمین اور اقلیتی برادری کے رہنماء سمیت متروقہ املاک کی ٹرسٹ بورڈ کے رکن بھی ہے انہوں نے بتایا ” قریب پونے چار سال عدالت میں کیس لڑنے کے بعد عدالت کے حکم پر گوردوارے کی زمین سے اسکول کو خالی کرایا گیا اور اب دوبارہ یہاں سری سنگھ سبھاء کے نام سے گوردوارہ قائم کیا گیا ہے”انہوں نے مذید بتایا ریٹ  نیٹ ورک کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کیلئے امدادی رقم فراہم کی گئی۔

جس کے بعد کیلاش ناتھ کوہلی نیپٹیشن دائر کی اور آخر کار کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا ” سردار جسبیر جی سنگھ کے مطابق ضلع ڑوب میں گوردوارے کی زمین پر م اسکول قائم کیا گیا ہے اور زیارت میں ایک مقامی شخص کی نے گوردوارے کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے انہوں نے مذید بتایا کہ اب بھی  قبضہ مافیا سے انہیں خطرہ لاحق رہتا ہے اور انکی عبادت گاہیں   چند ایک ہی رہ گئی ہیں ہم نے حکومت سے گزارش کر رکھی ہے کہ جن املاک پر ہماری عبادت گاہیں ہوا کرتی تھی وہاں موجود مقدس اشیاء کی حفاظت کی جائے اور ہماری کوشش ہے کہ تمام متروقہ املاک واگزار کرائی جائیں “وکیل و سماجی کارکن قمرالنساء   کے مطابق 1973 کے آئین کے مطابق آرٹیکل 8 سے لیکر 28 تک وضع کئے گئے بنیادی حقوق پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر حاصل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 1956، 1962 کے آئین میں بھی مذہبی اقلیتوں کے حقوق وضع کئے گئے تھے جبکہ مجریہ 1973 کے آئین  کا آرٹیکل 20 الف کے مطابق ”  ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسکی تبلیغ کرنے کا حاصل ہے، ہر مذہبی گروہ اور اسکے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور برقرار اور انکا انتظام کرنے کا حق رکھتا ہے” انہوں نے مذید بتایا کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ پر اسکول یا لائبریری بنانا قابل افسوس امر ہے حکومت کو چاہئے کہ مذہبی  اقلیتوں کی تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے اقدامات اٹھائے اور متروقہ املاک کو واپس اقلیتی برادردی کے عبادت گاہوں میں تبدیل کیا جائے۔

وکیل رضوان کاسی نے بتایا انہوں نے کیلاش ناتھ کوہلی کے چیمبر سے سابقہ اپوا (آل پاکستان وومین ایسوسی ایشن) گرلز ہائی اسکول  کے خلاف 2013 میں پٹیشن دائر کی جس کے کا نتیجہ اقلیتی برادری کے حق میں آیا ایک جانب فریق سردار جسبیر سنگھ جبکہ دوسری جانب حکومت بلوچستان فریق تھے۔انہوں   نے مذید بتایا ” اگر اقلیتی برادری چاہے تو میں بطور وکیل ان کی متروقہ املاک کے حوالے سے کیسز  بغیر معاوضے کے لڑونگا” جسٹس ریٹائرڈ کیلاش ناتھ کوہلی نے بتایا کہ انہوں نے سنڈیمن اسکول میں قائم لائبریر جو کے پہلے مندر ہوا کرتا تھا کو دوبارہ ہندو برادی کے کے حوالے کرنے کے لئے آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے انہوں نے بتایا کہ اپوا اسکول سے واپس گوردوار بنانا ایک بڑی کامیابی ہے تاہم اقلیتی برادری آپس میں چند ایک مسائل کا شکار ہے۔

وگرنہ متروقہ املاک جلد واگزار کرائی جا سکتی ہیں۔نام نہ ظاھر کرنے کی شرط پر سینئر اقلیتی رہنماء نے بتایا کہ مذہبی اقلیتی برادری کے اکثر مقدس مقامات پر مقامی اقلیتی افراد کی جانب سے قبضہ کرکے انہیں کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان زمینوں سے کرائے کی مد میں بھاری رقم وصول کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ زمینیں جو پہلے مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہوا کرتی تھی جس کو اب واگزار کرا کے عبادت گاہوں کی توسیع کرنا مشکل ہو رہا ہے۔جبکہ دوسری جانب ایک اقلیتی مذہبی رہنماء نے بتایا کہ کرایوں کی مد میں حاصل شدہ رقم ٹرسٹ کو وقف کردی جاتی ہے۔

تاہم جب اسی سلسے میں   بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے مشیر برائے اقلیتی امور دنیش کمار سے بارہا رابطہ کرنے کے باوجود بھی خبر کی اشاعت تک انکا موقف سامنے نہیں آسکا باوجود اس کے کہ دنیش کمار نے موقف دینے کے لئے ایک دن کا وقت مانگا تھا۔