|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

آج سے 18 سال قبل جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے گوادر پورٹ کے افتتاح کے بعد افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ گوادر میں انجینئرنگ اور میرین یونیورسٹی بنائی جائے گی جس سے گوادر کے لوگ تکنیکی اور سمندری علوم حاصل کرکے گوادر کی ترقی میں براہ راست شراکت دار ہوں گے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، پرویز مشرف کو جمہوری قوتوں نے ہٹایا، یا ڈیل کے تحت وہ خود اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور کا آغاز ہوا تو زرداری حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان نامی پیکیج کے تحت بلوچستان کی محکومیوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنے کا عندیہ دیا اور بلوچستان پیکیج کے نام پر پانچ ہزار لوگوں کو محکمہ تعلیم میں عارضی بنیادوں پر ایڈجسٹ کیا گیا۔

انہیں بعد میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں مستقل کرکے محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی کمی کسی حد تک پوری کی۔پیپلز پارٹی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے باوجود گوادر یونیورسٹی کے ادھورے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس دوران گوادر کے سیاسی اور سماجی ادارے بھی گوادر یونیورسٹی سے اپنے آپ کو بے خبر رکھتے رہے کہ مشرف دور حکومت میں گوادر کیلیے جس یونیورسٹی کا وعدہ کیا گیا تھا، اس وعدے کو عملی جامہ پہناکر گوادر کی ترقی میں مقامی نوجوانوں کو بھی شراکت داری کا موقع ملے۔

وقت کی سوئی معمول کے مطابق چلتی رہی، کبھی سنگھار ہاؤسنگ اسکیم تو کبھی نیوٹاؤن کے پلاٹوں کے حصول کیلیے سیاست سے لے کر سماج کے ٹھیکے داروں، بیوروکریٹس سے لے کر پٹواریوں، اور ماہی گیروں سے لے کر میڈیا کے لوگوں تک نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا فرض منصبی سمجھا، اور جس کے جو ہاتھ آیا وہ لے کر رفوچکر ہوگیا۔
نواز شریف دور حکومت میں بلوچستان میں حکومت سازی کیلیے معاہدہ بلوچستان کے مری میں طے پایا، جس کے مطابق ڈھائی سال کے لیے وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی اور ڈھائی سال کے لیے وفاق میں اقتدار پرست مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی جبکہ اسی اتحاد میں شامل پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو بلوچستان کی گورنرشپ اور چند اہم صوبائی وزارتوں سے نوازا گیا۔

1970 میں صوبائی حیثیت ملنے کے بعد بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت اعلیٰ کا تاج کسی نواب اور سردار کے بجائے مکران کے ایک مڈل کلاس سیاسی ورکر ڈاکٹر مالک کے سر پر رکھا گیا۔ ڈاکٹر مالک کے دور حکومت کو اس کے ناقدین بھی تعلیمی انقلاب کادور کہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر مالک نے اپنے حلقہ انتخاب میں یونیورسٹی آف تربت، مکران میڈیکل کالج اور لا ء کالج کا قیام میں عمل میں لاکر تعلیم کے میدان میں جو بیج بویا، آج وہ تناور درخت بننے کے قریب ہے۔ ڈاکٹر مالک نے بھی گوادر یونیورسٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلیے یونیورسٹی آف تربت کا ایک سب کیمپس گوادر میں قائم کیا اور گوادر یونیورسٹی کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی۔

نواز شریف دور حکومت میں گوادر یونیورسٹی کیلئے پانچ سو ایکڑ اراضی بھی حاصل کرنے کی بات ہوئی۔ نواز حکومت کے اختتام تک اس حوالے سے مزید پیش رفت نہیں ہوئی اور صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے یونیورسٹی آف گوادر کو منظوری مل سکی۔2018 کے الیکشن میں برسر اقتدار آنے والی نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے چند ماہ بعد نواز دور حکومت کے اس ادھورے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے گوادر یونیورسٹی کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کیلیے 8 ستمبر 2018 کو یونیورسٹی کے قیام کیلیے اجلاس منعقد کیا جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر حکام نے اس حوالے سے غور و خوض کیا۔ اس اجلاس کے بعد دو ماہ کی قلیل مدت میں بلوچستان اسمبلی نے 20 نومبر 2018 کو یونیورسٹی آف گوادر کا ایکٹ بلوچستان اسمبلی سے منظور کرلیا۔

اس ایکٹ کے تحت یونیورسٹی آف تربت کا سب کیمپس بھی یونیورسٹی آف گوادر میں ضم ہوگا۔گوادر یونیورسٹی کے قیام کے کے منصوبے کا جائزہ لینے کیلیے منعقدہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا تھا کہ سی پیک کے تناظر میں گوادر یونیورسٹی کا قیام ایک اہم منصوبہ ہے، گوادر میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی کے قیام سے گوادر، مکران اور پورے صوبے میں شعبہ تعلیم میں بہتری آئے گی۔ اسی اجلاس میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف تربت پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے بریفنگ میں کہا تھا کہ گوادر یونیورسٹی کا منصوبہ سی پیک کے منصوبوں میں شامل ہے اور فیڈرل پی ایس ڈی پی کا حصہ ہے جس پر لاگت کا تخمینہ 5 ارب روپے سے زائد ہے۔ یونیورسٹی کا ایکٹ اور چارٹر تیار ہے۔

اور منصوبے کی فیزیبلیٹی رپورٹ بھی تیار کرلی گئی ہے۔ ایکٹ کی منظوری اور اراضی کے حصول کے بعد منصوبے کا پی سی ون تیار کیا جائے گا اور اس پر تعمیراتی کام کا آغاز کردیا جائے گا۔لیکن صوبائی اسمبلی میں اس ایکٹ کو منظور ہوئے ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے اور اب تک گوادر یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔دوسری جانب ایک سال پہلے چینی حکومت نے گوادر کیلیے 4200 سولرز پینل عطیہ کیے تھے۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں گوادر پورٹ انتظامیہ نے ان سولر پینلوں کو سیاسی پارٹیوں، ماہی گیر تنظیموں اور گوادر پریس کلب کے حوالے کرکے اپنی ذمہ داری کو یہیں پر ختم کردیا جس کے بعد گوادر میں وہ طوفان برپا ہوا کہ جو اب تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

سوشل میڈیا میں شروع ہونے والا یہ طوفان اب گوادر کی سڑکوں پر پہنچ چکا ہے۔ جن کے ہاتھ سولر پینل نہیں آئے، وہ اس طوفان کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اس خیرات میں سب سے زیادہ حصہ ماہی گیر تنظیموں کو ملامگر کئی سال سے جو خواب ماہی گیروں کے بچے دیکھ رہے تھے، اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلیے سیاسی جماعتوں سے لے کر ماہی گیروں تک، سب خاموش ہیں۔ کیونکہ عالمی معیار کی گوادر یونیورسٹی کا ایکٹ نہ صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن بلکہ بلوچستان اسمبلی سے بھی منظور ہوچکا ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ایکٹ کے مطابق یونیورسٹی کا نام ”یونیورسٹی آف گوادر“ ہوگا جس میں میرین سائنسز، انجینئرنگ، پورٹ مینجمٹ، بزنس اور سوشل سائنسز سمیت کئی دوسرے شعبہ جات شامل ہیں۔

جہاں تکنیکی اور سمندری علوم کی تعلیم کیساتھ ساتھ قانون اور طب کی تعلیم بھی میسر ہوگی جبکہ سوشل سائنسز اور معاشیات کے شعبہ جات بھی یونیورسٹی آف گوادر کا حصہ ہوں گے۔حالیہ سولر پینل اسکینڈل کے بعد اب بھی گوادر کی سیاسی اور ماہی گیر تنظیمیں پورٹ حکام سے ملاقات میں گوادر کیلیے مزید سولر پینلوں کا مطالبہ کررہی ہیں جبکہ سرد خانے میں پڑی یونیورسٹی آف گوادر کے حوالے سے خاموشی سے یہ عیاں ہورہا ہے کہ ہمارے سیاسی لوگ قوم کے نوجوانوں کے مستقبل کے بجائے صرف چند سولر پینلوں اور معمولی مراعات کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ سمجھتے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں۔