کورونا وائرس پرسرار حالت میں اپنی پوری خامیوں، خرابیوں اور شرانگیزیوں کے ساتھ انسانوں کے دل و دماغوں پر چھایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں خوف کا ہونا فطری بات ہے۔ یہ وائرس پرسرار اس لیے ہے کہ اس کا علم خود مریض کو وائرس کی رپورٹ مثبت آنے پر ہوتا ہے۔ اس وائرس کا شکار ہونے کی علامات نہ بھی ہوں تو کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد مریض کو یہ خطرناک اطلاع دے دی جاتی ہے کہ آپ کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ گویا آپ معاشرے کے اچھوت انسان بن گئے ہیں۔ کورونا کے اکثر ٹیسٹ کا رزلٹ پازیٹیو آنے کی اطلاعات عام ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئے تو بیش تر ڈاکٹرز خصوصاً کورنگی کراسنگ کے قریب واقع بڑے خیراتی اسپتال کے ماہر ڈاکٹرز ایسی منفی رپورٹس کو درست تسلیم کرتے ہی نہیں۔
چاہے دو بار رزلٹ منفی کیوں نہ آیا ہو۔ کورونا وائرس کے شکار افراد میں جو تین خاص علامات بیان کی جارہی ہیں ان میں نزلہ، زکام،سانس لینے میں دشواری اور تیز بخار شامل ہے۔ مگر دیکھنے اور سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ اگر مذکورہ علامات نہ بھی ہوں تو کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ پازیٹیو آرہا ہے۔ کورونا کے مریضوں کو تلاش کرنے کے لیے ڈاکٹرز خصوصاً نامور اسپتالوں کا عملہ کس قدر متحرک ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب ان اسپتالوں میں کسی بھی مرض کے علاج کے لیے جانے والے مریض کا کورونا کا بھی ٹیسٹ کیا جانے لگا۔ نتیجے میں دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں اسپتالوں سے رجوع کرنے والے ”کورونا پیشنٹ“ قرار دئیے جارہے ہیں۔ جبکہ مذکورہ وائرس کی علامات سامنے نہ بھی آئیں تب بھی صرف شبہہ کی بنیاد پر کرائے جانے والے ٹیسٹ سے کورونا کا مریض بنانا عام ہوگیا ہے۔
جیسا کہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور صوبائی وزیر سعید غنی کے ساتھ ہوا۔ رزلٹ مثبت آنے کے بعد دونوں شخصیات نے 14 دن بلکہ 28 دن تک اپنے آپ کو کورنٹائن کیا۔ ان دونوں شخصیات کا رزلٹ پازیٹیو آنے سے ان پر اور ان کے خاندان پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ اللہ کی مہربانی سے دونوں شخصیات کا رزلٹ منفی آگیا جس کے بعد وہ اپنے معمولات زندگی میں مشغول ہوسکے۔ دلچسپ امر یہ کہ گورنر سندھ اور وزیر تعلیم کا کورونا ٹیسٹ مثبت اور منفی آنے کے دوران بھی دونوں کو کوئی علامات ظاہر نہیں ہوسکیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ منفی بھی آجائے تو احتیاطاً دوسری بار بھی یہ ٹیسٹ کرالینا چاہیے تاکہ کسی قسم کا شبہہ نہ ہو۔ اس ضمن میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس خطرناک ہے اگر کوئی شخص اس کا شکار ہوا ہے تو اسے یہ یقین کرلینا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کی بھی زندگی خطرے میں ڈال رہا ہے اس لیے اسے ایک کورونا ٹیسٹ کے منفی آنے کے بعد بھی دوسرا ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا میری نظر میں پہلے ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آنا زیادہ اطمینان کی بات نہیں ہے بلکہ یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اگر رپورٹ غلط ہوئی تو وہ متاثرہ شخص اپنے ساتھ خاندان اور دیگر ملنے جلنے والوں کے لیے بھی خطرات پیدا کردے گا۔
اس لیے بہتر ہے کہ وہ دوسرا ٹیسٹ کسی اور لیبارٹری سے کرالے تاکہ اسے اطمینان ہوجائے کہ وہ وائرس کا شکار نہیں ہوا۔ دوسری مرتبہ بھی رزلٹ منفی آنے پر کسی بھی شخص کو احتیاط کرتے رہنا چاہیے کیونکہ وائرس کہیں پر بھی اور کسی پر بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ جو ڈاکٹر قیصر سجاد نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی کہ ”کورونا ٹیسٹ کے 35 تا 38 فی صد نتائج میں غلطیاں ہوسکتی ہیں وہ مستند نہیں ہوتے“۔ ڈاکٹر قیصر سجاد کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ 62 سے 65 فی صد نتائج مستند ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب عالمی سطح پر کورونا ٹیسٹ کے نتائج 35 تا 38 فی صد غیر مستند یا اغلاط پر مشتمل ہوتے ہیں۔
تو آخر کیوں ڈاکٹر ان ہی ٹیسٹ خصوصاً مثبت آنے والے نتائج کو سامنے رکھ کر اعداد وشمار اکھٹا کررہے ہیں؟ جب کورونا کی ٹیسٹنگ کٹس خود سو فی صد درست نتائج نہیں بتاسکتی تو پھر آخر ان رپورٹس پر وہ بھی صرف مثبت آنے والے نتائج کی بنیاد پر کیوں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے؟ جبکہ منفی آنے والی رپورٹس پر ڈاکٹر اسے فوری درست نہیں تسلیم کرتے جبکہ ایک بار مثبت رپورٹ پر مریض کو نہ صرف خوفزدہ کردیا جاتا ہے بلکہ اسے آئسولیشن میں رکھ دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک تو پولیس اور انتظامیہ کورونا کے مریضوں کی موجودگی کی اطلاع پر اس طرح اسے پکڑ کر آئسولیشن سینٹرز میں لے جاتی ہے کہ وہ مریض نہیں بلکہ معاشرے کا خطرناک جرائم پیشہ ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے بیرون ملک سے خریدی جانے والی دس کروڑ روپے مالیت کی کٹس کو ناقص قرار دے کر اسے واپس کیے جانے کی اطلاع ہے۔ جبکہ بعد میں چائنا سے آنے والی کٹس کو ان کے مستند ہونے کے حوالے سے کس نے سرٹیفکیٹ جاری کیا اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا امریکا سمیت دنیا کے بعض ممالک کو ہوا۔ تو پھر آخر لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ آئندہ سخت کرنے کی باتیں کرکے خوف کیوں پھیلایا جارہا اور سندھ گورنمنٹ کیوں اس قدر سخت لاک ڈاؤن کررہی؟ حد تو یہ ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں بھی نماز جمعہ اور تراویح کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی جارہی حالانکہ یہی حکومت ایک فرقے کے لوگوں کو کراچی سمیت صوبے بھر میں آزادانہ جلوس اور مجالس کا اہتمام کرنے پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں کرسکی۔ اگر کورونا وائرس اس قدر خطرناک ہے تو کیا مجالس اور جلوس کے اجتماعات سے کورونا کیس نہیں بڑھیں گے؟ اور ان کیسز میں اضافہ ہوا تو کیا گورنمنٹ اس کی ذمے داری لے گی؟ سوچنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس اسی مخصوص فرقے کے لوگوں کے ذریعے ایران سے یہاں پہنچا تھا تو پھر اسی فرقے کو کیوں جلوس اور مجالس کی اجازت دی گئی؟
کیا حکومت اس فرقے کے لوگوں سے اس طرح محبت نہیں کرتی جس طرح دوسرے فرقے کے لوگوں سے کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ دوسرے فرقے کے لوگوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مساجد تک جانے سے روکنے کے سخت لاک ڈاؤن کرکے مساجد راستوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ اس قدر سخت لاک ڈاؤن تو کراچی اور حیدرآباد کے سوا ملک کے کسی شہر میں نظر نہیں آتا جبکہ اندرون سندھ کی صورتحال تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہاں کے رہنے والے لاک ڈاؤن سے واقف ہی نہیں ہیں۔کراچی کے لوگ کورونا وائرس سے اس قدر خوفزدہ نہیں ہیں جتنے صوبائی حکومت کے اقدامات سے خوفزدہ ہیں۔
یہ خوف انہیں اس لیے بھی ہے کہ صوبائی حکومت اب تک کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کررہی بلکہ خود تجہیز و تدفین مخصوص قبرستانوں میں کررہی ہے۔ ایسا کرکے حکومت سندھ کورونا کے شہداء کے جسم کی بے حرمتی اور گناہ کی مرتکب بھی ہورہی ہے۔ حالانکہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سندھ کو ایک خط کے ذریعے کہا ہے کہ وہ کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی میتوں کو ضروری کارروائی کے بعد ان کے لواحقین کے سپرد کرے۔ علماء کرام نے بھی کورونا وائرس سے انتقال کرجانے والوں کے جسد خاکی کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے پر تشویش ظاہر کی ہے ان کا کہنا ہے کہ میتوں کو مخصوص قبرستانوں میں دفنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو ہنگامی بنیادوں پر شہدا کی میتوں کے ساتھ کی جانے والی بے حرمتی اور انہیں اچھوت کے طور پر دفن کرنے کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ عدالت اور بااختیار منتخب حکام کو سیدنا علی کے یوم شہادت کے موقع پر جلسے جلوس کی اجازت دے کر ہزاروں افراد کی زندگیوں کو کورونا کے خطرے میں ڈالنے کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔
رہی بات کورونا وائرس کی تو وہ جس پرسرار انداز میں پھیلا ہوا ہے اسی حالت میں جلد دم توڑ دے گا۔ ان شاء اللہ۔ کورونا وائرس کی وبا ء پر شک کرنے والوں کا مذاق اڑانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا دیگر امراض سے اب لوگوں کا انتقال نہیں ہورہا ہے؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) جو ہر سال ساڑے چھ لاکھ افراد کے انفلوئزا فلو سے ہلاکت کے اعداد و شمار ظاہر کرتی رہی کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ گزشتہ نومبر سے اب تک اس انفلوئزا وائرس کی لپیٹ میں آکر کتنے افراد اپنی جانوں سے چلے گئے ہیں؟