نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا زرعی اور زرخیز علاقہ ہے اور یہاں گندم کی بمپر فصل اور وافر مقدار میں پیداوار ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت محکمہ خوراک کے ذریعے ہر سال گندم خریداری کرتی ہے اور اس کیلئے ہمیشہ بہت دیر کی جاتی ہے لیکن سابقہ ادوار اور موجودہ کورونا وائرس جیسے وباء کی پریشانی کے باعث گندم کی خریداری بیوپاریوں نے بلوچستان حکومت سے قبل شروع کی۔ جب گندم کی ساٹھ فیصد سے زائد کوئٹہ کے بیوپاری خریداری کر چکے تھے تو پھر حکومت کو خریداری مراکز قائم کرنے کا خیال آیا۔ بلوچستان حکومت نے آج تک کسی بھی فیصلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بہتر پلاننگ کی جاتی ہے، اب گندم خریداری مراکز گندم کی فصل ختم ہونے کے بعد کیا خریداری حدف پورا کر سکیں گے یقینا جہاں ٹھوس منصوبہ بندی نہ کرکے گندم کی خریداری کا نہ تو ہدف پورا کیاجا سکا ہے۔
اور نہ ہی زمیندار محکمہ فوڈ پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ اس سال کورونا وائرس کے باعث جہاں ملک میں گندم کے ذخائر ختم ہو رہے تھے وہاں صوبوں کو مرکز سے گندم خریدنے پڑے۔ اس بار ہم یہ سمجھے کہ کورونا وائرس سے ہمارے حکمرانوں کا دماغ ٹھکانے پر آئے گا لیکن گندم مارچ کے آخر اور اپریل کے شروع میں تیار ہو کر مارکیٹ میں آجاتی ہے۔ بلوچستان حکومت کورونا وائرس کے خواب اور اپنی غفلت کے باعث خریداری مراکز قائم کرنے میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ناکام رہی اور اپریل کے آخرمیں محکمہ فوڈ نے گندم خریداری کا ہدف 10 لاک میٹرک ٹن مقرر کرکے خریداری شروع کردی اور پورے ڈویژن میں 21 خریداری مراکز قائم کر دئیے۔ گندم کی سرکاری قیمت 14سو روپے مقرر کی گئی جس میں خرچہ اور کٹوتی اس کے علاوہ ہے لیکن اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت پندرہ سو روپے چل رہی ہے۔
جس کے باعث محکمہ فوڈ کو کوئی بھی کسان زمیندار اور بیوپاری گندم دینے پر رضامند نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت نے گندم کی نقل و حمل پر پابندی بھی لگائی ہے لیکن پابندی کے باوجود بھی مٹھی گرم ہونے پرگندم کوئٹہ پہنچ ہی جاتی ہے یعنی باخبر ذرائع کے مطابق گندم کی فی ٹرک سے تیس ہزار روپے تک لے کر اسے جانے دیا جا رہا ہے۔ یہی بلوچستان کی گندم افغانستان تک سمگلنگ ہو رہی ہے حکومت کی ناقص پلاننگ اور منصوبہ بندی سے جہاں قومی خزانہ کو نقصان ہو رہا ہے وہاں گندم کے ہدف کے حصول میں ناکامی سے مستقبل میں خوراک کا خطرناک بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
بلوچستان حکومت اگر گندم خریداری میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو فروری کے وسط ہی میں گندم کے خریداری سینٹرز قائم کرتے تاکہ اس سے چھوٹے بڑے زمیندار استفادہ کرتے لیکن زمینداروں اور کسانوں کو سابقہ تجربات کی بنیاد پر معلوم تھا کہ محکمہ فوڈ چھوٹے کسانوں اور زمینداروں کے بجائے بااثر زمینداروں کے گندم خرید تا ہے اسی وجہ سے وہ محکمہ فوڈ پر زیادہ انحصار نہیں کرتے۔ بلوچستان حکومت نے اس سال لاکھوں میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا ہے وہاں اس نے ابھی تک سینکڑوں ٹن گندم کی خریداری نہیں کر سکی ہے یقینا یہ صوبائی حکومت کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے یا پھر صوبائی حکومت اس قدر بے بس اور بے اختیار ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ گندم خریداری سالانہ کی بنیاد پر ہونے کے باوجود اس کیلئے تیاری نہ کرنا اور خریداری حدف حاصل نہ کرنا صوبائی حکومت کی ناکامی اور نااہلی کا ایک واضح ثبوت ہے۔
آپ پنجاب حکومت کی مثال لے لیں وہ گندم خریداری کا کس طرح اور کس وقت میں پلاننگ کرتے ہیں فروری میں ٹینڈر تک اوپن کرکے مارچ میں ہی خریداری سینٹر قائم کر دیئے جاتے ہیں جہاں چھوٹے اور بڑے زمیندار سرکاری نرخ سے میرٹ پر ہی مستفید ہوتے رہتے ہیں بلوچستان میں ہمیشہ سابقہ ادوار میں چھوٹے زمیندار اپنے گندم اوپن مارکیٹ میں بیچتے تھے جبکہ فوڈ ڈپارٹمنٹ بڑے بڑے اور بااثر زمینداروں اور بیوپاروں سے ہی گندم خریدتا تھا آج وہی محکمہ فوڈ کے خریداری مراکز خود مکافات عمل کا شکار ہیں اوپن مارکیٹ میں نرخ زیادہ ہونے کے باعث چھوٹے زمیندار اوپن مارکیٹ میں گندم بیچ چکے ہیں جبکہ بڑے زمیندار کم نرخ پرمحکمہ فوڈ کو گندم دینا ہی نہیں چاہ رہے۔اب تک ساٹھ ہزار پانچ سو میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے جوکہ ہدف کا صرف کوئی بیس فیصد تک ٹارگٹ پورا ہوتا ہوا بھی نہیں لگے گا۔
مجھے بلوچستان حکومت کے اس طرح کی سستی یا کاہلی کا اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ وہ ایسا کیونکر کر رہی ہے کیا وہ بااختیار نہیں ہے کیا ان کے فیصلے بیورو کریسی نہیں مان رہی کیا وہ فیصلہ سازی میں کسی دشواری میں مبتلا ہے کیا جب تک انہیں کوئی نہ کہے تب تک وہ کچھ نہیں کرتے یا عوامی مطالبے کے بعد گندم خریداری کا اعلان کیا جاتا ہے تاہم یہ تمام حقائق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وزیر خوراک جو اسمبلی میں سب سے زیادہ بولنے میں مشہور ہیں وہ اور محکمہ فوڈ کے ذمہ داران ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن بلوچستان کے حکومت کو اب باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی کہ گندم مراکز کس ماہ میں قائم کرنے ہیں اور خریداری ہدف کو حاصل کیئے بغیر گندم کی بین الاضلاع پابندی پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، کسی بھی ٹرک کو سفارش یا مٹھی گرم کرنے کی صورت میں بھی چیک پوسٹ سے گزرنے نہ دیا جائے۔
اگر کوئی گندم کی نقل و حمل میں کسی بھی ٹرک کو پکڑا جائے تو اسے محکمہ فوڈ سرکاری تحویل میں لیکر گندم ضبط کرے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص گندم سمگلنگ نہ کرے تاکہ سرکاری ہدف آسانی سے پورا ہو سکے اور کسی بھی بحران میں گندم اور خوراک کا عوام کو قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے اس طرح کے فیصلے سیاسی سفارش اور میرٹ کو خاطر میں لائے بغیر کیے جائیں تو بلوچستان باآسانی دس لاکھ میٹرک ٹن کا حدف پورا کر سکتا ہے اور مزید گندم افغانستان جیسے ملک کو درآمد کرکے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے تاہم اس کیلئے آزادانہ اور میرٹ پر فیصلے کرنے ہوں گے اور پھر محکمہ خوراک اپنے مقصد میں یقینا کامیاب ہو سکے گا۔